Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Kya Tum Sub Aik Nahi Ho?

Kya Tum Sub Aik Nahi Ho?

کیا تم سب ایک نہیں ہو؟

آج بڑے دنوں کے بعد اس کا میسج آیا اور بات چیت ہونے لگی۔ حسب معمول بات چیت ہونے کے بعد، باتوں کا موضوع ایسے رخ پہ مڑ گیا کہ جس میں اس کے سمجھ اور سوچ کا اک نیا زاویہ معلوم ہوگیا۔ میں نے اس بات پہ پہلے بھی لکھا ہے لیکن اب اس موضوع پہ بہت کچھ نیا لکھنے کی ضرورت ہے اور اس لیے اس کو مزید واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

مرے استاد فرمایا کرتے تھے، پتھر، انسان اپنے دل کی اصلی بات یا تو طنز و مزاح میں کرتا ہے اور یا پھر انتہائی غصے کی حالت میں، اور یہ اس کے دل میں چھپی حقیقت ہوتی ہے جس کو وہ نارمل حالت میں سامنے لانے سے شاید کتراتا ہے اور آج اس نے بھی مزاح مزاح میں، باتوں ہی باتوں میں اپنے دل کی یہ بات آشکار کردی کہ اس کو پٹھانوں سے خو ف کیوں محسوس ہوتا ہے؟

اس نے سوال کیا ہی بڑھیا طریقے اور سگڑ انداز میں کیا کہ تم پٹھان لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ قتل نہیں کرتے کیا؟ تم پٹھان نہیں ہو کیا؟ کیا تمہاری فیمیلیز میں یہ کام نہیں ہوتا؟ کیا سارے پٹھان ایک جیسے نہیں ہوتے؟ یا سب الگ الگ ہوتے ہیں کیا؟ یہ سارے سوالات اس نے اک ہی بار میں پوچھ ڈالے جیسے کہ اس کو یہ سب پوچھنے کی جلدی ہو۔

کسی کا کسی بھی قسم کا سوال نہ ہی تو برا ہوتا ہے اور نہ ہی عجیب مگر جب اس طرح کے سوال آپ کے ہر دلعزیز شخص سے سننے کو ملے تو یہ گیارہ ہزار واٹ کی بجلی کے جھٹکے سے یہ جھٹکا کم نہیں ہوتا۔ مجھے شاک دو باتوں کی وجہ سے لگا، اک تو موضوع گفتگو کے حوالے سے یہ سوالات نہایت ہی غیر متعلقہ تھے، اور دوسرا یہ سوالات نہ جانے کب سے اس نے اپنے من میں سنبھال رکھے تھے اور آج تک اس کو پوچھنے کی نوبت نہیں آئی اور پھر آج کیا ہوا؟ لیکن خیر سوال سوال ہوتا ہے اس میں کیوں، کیسے اور کہاں سے آیا کی منطق نہیں چلتی۔

سوال وقوعات اور تجربات کے بغیر جنم نہیں لیتے۔ آپ اپنی زندگی میں کچھ ایسا دیکھ، پڑھ یا سن لیتے ہیں جس سے آپ کا ذہن تجسس پال لیتا ہے اور وہ تجسس ہی ہوتا ہے جو سوال کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر انسان پیدا ہی تجسس کے ساتھ ہوا ہے۔ روح تب تک بے چین رہتی ہے جب وہ اپنے پالے ہوئے تجسس کا کوئی اپائیے نہیں ڈھونڈلیتا اور آج اس کو بھی شاید وہ موقع مل ہی گیا اور اپنی ساری تجسس کو سوال کی شکل میں رکھ د یئے۔

عام اصول یہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی بھی چیز کا موازنہ درکار ہو تو ابتداء مثبت چیزوں سے ہوتی ہے۔ ہر چیز، معاملے، حالات، جگہ یا لوگوں یا رسومات کے پروز یا فایدے، یا مثبت پہلو دیکھے جاتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے منفی پہلوؤں پہ نظر ڈالی جاتی ہے اور پھر موازنہ کیا جاتا ہے کہ کونسا پہلو، کونسا پلڑا بھاری ہے۔ لیکن کسی بھی چیز کا تعارف، یا اس پہ لیبل صرف اس کے متعلق آپ کو معلوم منفی پہلوؤں کی توسط سے نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ طریقہ درست نہیں اور اس عجیب و غریب قسم کے تقابل نے مجھے حیران کردیا۔ یہ فی نفسہ تقابل سے زیادہ نفرت کا تاثر دے رہی تھی۔

خیبر پختونخواہ، پاکستان کا وہ صوبہ وہ علاقہ ہے، جہاں پشتون قوم صدیوں سے آباد ہے اور اس قوم کے متعلق دو چیزیں ایسی بتائی اور پائی گئی ہیں جس پہ ہر دور کا مورخ متفق ہے۔ پہلی، اس قوم کو آج تک کوئی غلام نہیں بنا سکا اور دوسرا اس خطے میں اسلام آنے سے پہلے ہی اپنے بہت سارے رسم و رواج و عادات رکھنے سے مسلمان تھی۔ جیسے کہ پردہ داری، مہمان نوازی، بزرگوں کی اطاعت، حلال کمائی، ہاتھ پھیلانے اور دوسروں کی مختاجی سے نفرت، عورت ذات کی حفاظت اور اسکی حیاء کا تقدس وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو بہت بڑی کمی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی وہ تھی دنیاوی علم سے دوری اور اس چیز نے آنے والے نسلوں کو بڑھتی ہوئی دنیاوی ترقی، اور شعوری رجحان سے دور رکھا اور وہ اس قوم کی شملے (عزت) کو داغ دار کرنے لگا۔ پٹھانوں میں آج بھی کم سہی مگر ایسے علاقے موجود ہیں جس میں دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں کی ابھرتی ہوئی نسل جہالت روی کی طرف دوڑ رہی ہے۔ یہی جہالت ان سے جاییداد و مال کے جھگڑے، اور غیرت و انا کی ضد، نسل در نسل دشمنیاں پالنے کا قبیح فعل کروارہی ہے۔ جو کہ اس قوم کی شملے کے لیے دھیمک کی مانند ثابت ہو رہی ہے۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس قوم میں ہر جگہ اور ہر گھر میں لوگ اک دوسرے کو چھوٹی چھوٹی بات پہ قتل کرتے پھر رہے ہیں اور اب تو قتل کرنے کا وہ جاہل پن بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ علم کی شمع اس قوم کو ان تاریک راستوں سے نکال رہی ہے۔

جیسے کہ میں ابتداییے میں عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی چیز کا موازنہ اس چیز، جگہ یا شخص میں موجود منفی پہلوؤں سے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اگر یوں دیکھا جائے تو کیا پاکستان کے دوسرے شہروں اور صوبوں میں جرائم نہیں ہوتے؟ کیا وہاں قتل نہیں ہوتے؟ کیا وہاں باپ اپنی بیٹی کو 20 سال تک اک کوٹھری نما کمرے میں نظر بند نہیں رکھتے؟ کیاوہاں عورت کی حیاء اور چادر پامال نہیں ہوتی؟ کیا وہاں عورت کے منہ پہ تیزاب نہیں پھینکا جاتا؟ کیا وہاں پہ حواء کی بیٹی کو سرعام محفلوں میں نہیں نچوایا جاتا؟ کیا وہاں پہ حواء کی بیٹی کو نام نہاد جدید طرز تعلیم سے آراستہ درسگاہوں میں اظہار رائے کے نام پہ بے حیائی کا شعور نہیں دیا جا رہا؟ کیا مرا جسم مری مرضی جیسے بے حیایی کے مارچ نہیں نکلتے؟ کیا وہاں عورتوں کے حقوق کے نام پہ اس بات کا غلط شعور نہیں دیا جا رہا کہ شوہر کے کمائی کی مختا ج بن کے نہ رہو، خود نامحرم ماحول میں رہ کر کماؤ اور اگر محسوس ہوتو خلع لو؟

نہ جانے ایسے کیا کیا کام پاکستان کے دوسرے صوبوں، شہروں اور خاندانوں میں نہیں ہوتے۔ لیکن اس کا ہر گز ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ کہنا شروع کریں کی کیا سارے پاکستان (پنجاب یا سندھ یا بلوچستان) میں ہر گھر میں یہ کام ہوتا ہے۔ نہیں اچھائی اور برائی ہر جگہ ہوتی ہے اور یہی اصل معاشروں کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے مثبت پہلوؤں کو نمایاں کریں اور اپنی منفی چیزوں کی نشاندہی کرکے اس کو دور کرنیکی تگ و دو میں برسر پیکار ہو جاییں۔

اور آخر میں کوئی بنی آدم برا نہیں ہوتا، برا اس سے جڑا وہ فعل ہوتا ہے جو سماجی، مذہبی قواعد کے خلاف ہوتا ہے اور یوں نفرت اس ابن آدم سے نہیں بلکہ اس سے جڑی اس برائی سے کرنی چاہیے اور رہی بات قبائل اور خاندانوں کی تو اس میں کوئی برتری نہیں کہ کون کس قبیلے سے ہے اور کس سے نہیں اور نہ ہی کوئی کم تر۔

بلکہ اللہ کریم سورہ الحجرات میں فرماتا ہے۔ " کہ یہ قبائل ہم نے اس لیے بنائے تا کہ تم اک دوسرے کی پہچان کر سکو، لیکن بہتر تم میں سے وہی ہے جس میں زیادہ تقوی ہوگا"۔ (مفہوم)

تو پھر یاد رکھو اس میں کوئی پھنے خانی نہیں کہ تم پٹھان ہو، پنجابی ہو عربی ہو، گورے ہو، کالے ہو، سندھی ہو یا کچھ بھی ہو۔ کمال یہی ہے کہ تم میں کتنا تقوی ہے۔

اللہ کرے یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائے آمین۔۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari