Islam Kya Hai?
اسلام کیا ہے؟
پوری دنیا میں کسی بھی چیز کو جلد اور موثر انداز میں سیکھنے کا بہترین طریقہ کار ہے سوال و جواب۔ یہ طریقہ ہے تو پرانا مگر اس کا موثر نعم البدل آج تک انسان اتنی ترقی کے باوجود بھی دریافت نہیں کر پایا۔ یاد رکھیں سوال تجسس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور تجسس کا ماخذ حساسیت ہے۔ حساسیت چھوٹی سے چھوٹی چیز کو محسوس کرنے کا نام ہے۔ حساسیت تجسس کی روح کو بے قرار رکھتی ہے اور تجسس اس بے قراری کے ہاتھوں مجبور ہو کے سوال پوچھ ڈالتا ہے۔ اب تجسس جتنی زیادہ اور گہرا ہوگا سوال اتنے زیادہ اور گہرے ہونگے۔ حساسیت ہے تو بڑی اچھی چیز مگر اسکے نقصانات بھی بہت ہیں۔
آج میں حسب معمول ڈیوٹی پہ تھا اور اسکی بھی ڈیوٹی مارننگ کی تھی۔ جب وہ آئی اور سلام کلام کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم (مسلمان) الکوحلک چیزیں نہیں پیتے ہو نا؟ میں بولا ہاں۔ تو اس نے متجسسانہ انداز میں جوابی سوال پوچھا کہ کیوں؟ اب یہ سوال کوئی عام سا سوال نہیں ہے اور نہ ہی اس کا جواب "دین میں اسکی ممانعت ہے" جیسے سادہ سے جواب سے دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ جواب پوچھنے والی تشنگی کو سیراب نہیں کرسکتا۔ لیکن میں نے عمومی انداز میں یہی جواب دیا کہ ہاں الکوحل اور پورک کا گوشت ہمارے مذہب میں منع ہے اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔
ڈیوٹی ختم تو ہوئی مگر اسکا تجسس نہیں اور تب اس کا دوبارہ میسج آیا کہ "آج میں نے آپ سے شراب کے بارے میں پوچھا، تو اب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا ہے، جو مجھے جواب ملاہے، کیا یہ درست ہے؟
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے"۔ (قرآن 2: 219)
ایک اچھی شام گزاریں"۔
یہ اس کا سوال تھا، اور یہی وہ تجسس ہوتا ہے جو آپ کو سوال کرنے پہ مجبور کرتا ہے اور تب تک سانس نہیں لیتا جب تک اسکو مطلوبہ تسلی بخش جواب نہیں مل پاتا۔
میں کوشش کرتا ہوں کہ خود بھی تھوڑا مفصل اور جامع انداز میں سمجھوں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اس نئے دوست کو بھی اس طریقے سے اپنا دین اور کلچر بیان کرنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اسلام کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جہاں سے دین اسلام کو سمجھنے کا دروازہ کھلتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں دروازے چاہے جتنی بھی کھل جائیں یا بند ہوجائے، لیکن پلے بات تب پڑے گی جب ہم ذہن سے تعصب کا لبادہ اتار دیں اور اس کو سنجیدگی سے سمجھنے کی سعی کریں۔ ورنہ وہ سلطان باہو صاحب کا شعر ہے۔
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں نام رکھ لیا قاضی
او بھلیا حاصل کی کیتا جے توں رب نہ کیتا راضی
اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ اسلام اس وقت روئے زمین پہ وہ واحد دین ہے جو سلامتی کا علمبردار ہے۔ ویسے تو میڈیا جس اسلام کی اشاعت میں مصروف ہے اس سے تو بس یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام تو خؤف اور حراس کا دین ہے۔ لیکن میڈیا تو نام ہے طاغوت کا اور طاغوت کو صرف اسلام ہی برا نہیں لگتا بلکہ اس کی تو دال روٹی ہی عام انسانیت کو تکلیف و اذیت میں رکھنے سے چلتی ہے۔
اسلام صرف اک دین نہیں بلکہ اک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ آپ کو صبح اٹھنے سے لے کر رات کو دوبارہ سونے تک کے مکمل نظم و ضبط کا درس دیتا ہے، اسلام نظم و ضبط و ترتیب پہ بہت فوکس کرتا ہے۔ اس لیے اسلام کے ہر بنیادی رکن میں بالخصوص ترتیب و نظم و ضبط کی ترغیب و درس نمایاں ملتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کام ہو، چاہے عبادت ہو یا کوئی معاشرتی یا ثقافتی کام ہو، ترتیب اور نظم و ضبط کے بغیر اس کا وجود مکمل نہیں ہوتا۔
اسلام کی عمارت چار ستونوں پہ کھڑی ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ کوئی بنیادی یا فرض یا اہم معاملات اسلام میں نہیں۔ ان چار کے علاوہ بھی کئی ایسے معاملات ہیں جس کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ لیکن ابتدا، یہیں سے ہوتی ہے۔
نماز، روزہ، زکواۃ اور حج۔ یہ وہ چار بنیادی باتیں ہیں جس سے اسلام کی عمارت کی ابتدا، ہوتی ہے اس کے بغیر اسلام کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب عمارت کا ڈھانچہ مکمل ہو جائے تو پھر اس کے بعد اور ہزار چیزیں ہوتی ہیں جس کے بغیر عمارت مکمل نہیں ہوتی۔
نماز، روزہ، زکواۃ اور حج۔ یہ وہ چار بنیادی باتیں ہیں جس سے اسلام کے عمارت کی ابتدا، ہوتی ہے اس کے بغیر اسلام کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب عمارت کا ڈھانچہ مکمل ہو جائے تو پھر اس کے بعد اور ہزار چیزیں ہوتی ہیں جس سے عمارت مکمل نہیں ہوتی۔
نماز: آپ نے کبھی غور کیا ہے، کہ جب کوئی انسان کوئی ورکر کام میں مشغول ہوتا ہے اور اس کا مالک، یا باس اس کے پاس جاتا ہے کہ اور کہ دیتا ہے کہ فلاں سن، آپ کو جب بھی کوئی مسئلہ ہو، کوئی مشکل ہو یہ میرا نمبر ہے مجھے سیدھا فون کرنا۔ تو اس ورکرکے چہرے پہ خوشی دیدنی ہوتی ہے اور پھر وہ اترتا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح اللہ کریم جو کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اس نے بھی اپنے بندوں کے اپنے رب کے ساتھ بات کرنے کے ذریعہ مہیا کرنے کے لیے نماز بھیجی ہے۔ یاد رکھیں نماز صرف مسلمانوں پہ فرض نہیں بلکہ یہ عیسیٰؑ کی قوم پہ بھی دن میں غالبن 25 بار فرض تھی اور ہم مسلمانوں پہ اللہ کریم نے 5 بار دن میں فرض کی ہے۔ بلکہ اللہ ہم میں سختی سے بلا رہا ہے کہ اپنے رب سے اپنے خالق و مالک سے بات کرنے، ان سے اپنی مشکل بیان کرنے آیا کرو، اس سے مدد مانگا کرو۔ لیکن ہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
یاد رکھیں نماز کے نہ پڑھنے والا بندے کو اک جگہ قرآن نے کافر قرار دیا ہے۔ امام شافعی مسلک کے ماننے والے اک مفتی اعظم کا فتوی تھا کہ جو نماز نہیں پڑھتا اس کو مسلمانوں کی قبرستان میں نہ دفناو اور قرآن سورہ مدثر میں جہنمیوں کا چھوٹا سا مکالمہ بیان فرمایا ہے۔ جس میں جہنمی اپنے جہنم جانے کی تین وجوہات بتاتے ہیں۔ اس میں اک وجہ یہ ہے: ہم تھے نماز نہ پڑھنے والے۔ تو یہ ہے اسلام میں نماز کی اہمیت۔ نماز کا اک اور بہت بڑا درس وقت کی پابندی سکھاتا ہے۔ کیونکہ قرآن فرماتا ہے، "کہ نماز مومنوں پہ اپنے مطلوبہ وقت میں فرض کی گئی ہے" (مفہوم) جو باقاعدگی سے نماز پڑھنے والا ہوگا اسکی زندگی میں وقت کی اہمیت اور اس کی پابندی نمایاں ہوگی۔
روزہ: اسلام میں روزہ دوسرے عبادتوں کی طرح نہایت اہم رکن ہے اور چار ستونوں میں سے اک ستون ہے۔ روزہ کا ہماری جسمانی اور روحانی تربیت سے گہرا تعلق ہے۔ روزے میں اسلام کا مقدس کتاب قرآن نازل ہوا۔ قرآن میں مسلمان تیس دن روزہ رکھتے ہیں جس میں وہ کھانے پینے، غلط اور فحش گوئی سے، جھوٹ، دھوکہ دہی نیز ہر غلط اور ہر غیر شرعی کام سے خود کو یعنی اپنے نفس کو روک کے رکھتے ہیں۔ اب اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف رمضان کے مہینے میں تیس دن کے لیے خود کو کھانے پیینے سے روک کے رکھیں بلکہ اس اک مہینے میں ہماری تربیت ہوتی ہے کہ ہم کو اپنا باقی سال کیسے گزارنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں مسلمانوں نے روزے کو بس فقط اک روایت کی حد تک محدود کر دیا ہوا ہے اور اسکا اصل مسلمانوں کی زندگی سے گم ہو چکی ہے اور اسی لیے مسلمان آج اپنے ڈھیر ساروں معاملات میں مار کھا رہے ہیں، زلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا اور انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ روزہ انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر مضبوط بناتا ہے۔ اس کے علاوہ روزہ ہمیں غریبوں اور محتاجوں کے حال کا احساس دلاتا ہے اور ان کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے بلکہ ہر برے کام سے بچنا بھی ضروری ہے۔ یہ انسان کو اخلاقی طور پر مضبوط بناتا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
مجموعی طور پر، روزہ اسلام میں ایک عبادت ہے جو جسمانی، روحانی اور اخلاقی تربیت فراہم کرتی ہے۔ روزہ کے دوران کھانے پینے سے پرہیز کرکے، انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے، جو کہ تقویٰ کی ایک علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کو سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا تھا تاکہ وہ بھی تقویٰ اختیار کریں۔ روزہ ہمیں صبر، تحمل اور استقامت سکھاتا ہے، اور یہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔
زکواۃ، اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اور اس کا مقصد مال و دولت میں پاکیزگی پیدا کرنا اور معاشرتی انصاف کو فروغ دینا ہے۔ لفظ "زکواۃ" عربی زبان میں"پاکیزگی" اور "نشوونما" کے معنی رکھتا ہے۔ زکواۃ ایک مقررہ حصہ ہے جو صاحبِ نصاب مسلمان اپنے مال سے نکال کر مستحق افراد کو دیتے ہیں۔
اسلام میں زکواۃ کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ دولت صرف چند لوگوں کے پاس مرکوز نہ ہو جائے بلکہ یہ معاشرے کے ہر طبقے میں تقسیم ہو۔ زکواۃ کا نصاب عام طور پر سالانہ 2.5% ہوتا ہے جو سونا، چاندی، نقدی، تجارتی مال، اور زرعی پیداوار وغیرہ پر لاگو ہوتا ہے۔
زکواۃ کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ اور مستحق افراد کی مدد کرنا ہے۔ قرآن مجید میں زکواۃ کے مستحقین کا ذکر کیا گیا ہے جن میں فقیر، مسکین، قرض دار، مسافر، اور دیگر حاجت مند شامل ہیں۔
زکواۃ دینے سے دل میں سخی پن پیدا ہوتا ہے اور انسان کو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ اس کے ذریعے انسان دنیاوی مال و دولت کی محبت سے نکل کر آخرت کی تیاری کی طرف مائل ہوتا ہے۔
زکواۃ نہ صرف روحانی طور پر فائدہ مند ہے بلکہ یہ معاشرتی استحکام، انصاف، اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ اسلام میں زکواۃ کو ادا نہ کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے، کیونکہ یہ اللہ کے حق میں سے ایک حق ہے جو بندے پر فرض ہے۔
حج: حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عظیم ترین عبادات میں شمار ہوتا ہے۔ حج عربی لفظ ہے جس کے معنی "قصد" یا "ارادہ" کے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں، حج کا مطلب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخصوص ایام میں مکہ مکرمہ کی مقدس جگہوں کا قصد کرنا اور وہاں مخصوص عبادات انجام دینا ہے۔
حج ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو جسمانی اور مالی لحاظ سے اس کی استطاعت رکھتا ہو، اور یہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہوتا ہے۔ حج کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں سے معافی طلب کریں، اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں، اور اپنی زندگی کو بہتر بنائیں۔ حج کا آغاز حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی اور اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی تعمیر سے ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے اس عظیم عمل کی یاد میں حج کے دوران مختلف عبادات ادا کی جاتی ہیں، جیسے طواف، سعی، عرفات میں وقوف، اور قربانی۔
حج کی روحانی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ مسلمانوں کو اللہ کے سامنے عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ پیش ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حج کے دوران، دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مسلمان ایک ہی لباس (احرام) میں ملبوس ہو کر اللہ کے سامنے یکسانیت اور برابری کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ حج اتحاد، بھائی چارہ، اور امت مسلمہ کی یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ سب ایک اللہ کے بندے ہیں اور ان کی اصل حیثیت تقویٰ اور اللہ کے سامنے عاجزی میں ہے۔ حج کے دوران انجام دی جانے والی عبادات کا مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا، گناہوں سے پاک ہونا، اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔ حج کے بعد، حاجی کو ایک نئے سرے سے اپنی زندگی کو تقویٰ اور نیکی کے راستے پر گامزن کرنا چاہیے۔
مجموعی طور پر، حج مسلمانوں کے لیے ایک عظیم روحانی سفر ہے جو انہیں اللہ کی قربت، تقویٰ، اور اخلاص کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور انہیں دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔