Islam Aur Isaiyat (6)
اسلام اور عیسائیت (6)
کچھ دن پہلے میری دوست سے بات چیت ہو رہی تھی، ہم بہت عرصے بعد رابطے میں آئے تھے، اور باتوں کا موضوع زیادہ تر عام زندگی کے متعلق تھا۔ اچانک اس نے ایک ایسا سوال کیا جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ "کیا اسلام میں غیر مسلم لڑکی کو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے رشتے میں رہنے کی اجازت ہے؟ یعنی بغیر نکاح کے، صرف ایک ساتھ رہنا؟"
یہ سوال میرے لیے غیر متوقع تھا، یہ تو مجھے معلوم تھا کہ میری دوست ہمیشہ سے آزادی کے فلسفے پر یقین رکھنے کی قائل ہے۔ حتی کہ اس کے ہاتھ پہ اک ٹیٹو بھی بنا ہوا ہے جو "جیو اور جینے دو" کے فلسفے و نظریے کی علامت ہے۔ میں نے کچھ دیر کے لیے سوچا اور پھر تجسس میں اس سے عرض کیا کہ "تم نے یہ سوال کیوں پوچھا؟ یہ تو ہماری گفتگو کا موضوع بھی نہیں تھا"۔ پہلے تو وہ تھوڑی سی ہچکچائی، لیکن پھر اس نے سچائی ظاہر کی۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ کافی عرصے تک بغیر نکاح یا کسی قسم کے سوشل کانٹریکٹ کے رشتے میں رہا کرتی تھی، مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے رمضان کے مہینے میں پورے روزے بھی رکھے تھے محض اس لڑکے کی محبت میں۔
وہ کہتی تھی کہ اس کا مقصد محبت اور اپنے ساتھی کی خوشی تھی، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، لیکن وہ روزے اس لیے رکھتی تھی کیوں کہ اس کا پارٹنر روزے سے ہوتا تھا تو اس کے لیے گوارا نہ کیا کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ یہ سن کر میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ میرے ذہن میں اپنے بلاگ "اسلام اور عیسائیت" کی سیریز کا خیال آیا، جس کو حال ہی میں، میں لکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنی گزشتہ تحریریں دیکھیں تو ایک اہم بات سامنے آئی: میں نے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے صرف چار ارکان کا ذکر کیا تھا، اور شہادت (توحید کا اقرار) کو بھول گیا تھا، جو کہ سب سے پہلی اور اہم شرط ہے۔
شہادت کی اہمیت: اسلام میں ایمان کی بنیاد شہادت پر ہے۔ جس طرح کسی بھی عمارت کی بنیاد اک مضبوط اور ہموار زمینی سطح کے بغیر کھڑی نہیں ہو سکتی، ویسے ہی اسلام میں اعمال کی بنیاد شہادت پر ہے۔ اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔
شہادت، (اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار)، نماز، روزہ، زکواۃ اور حج۔
لیکن ان تمام ارکان کی قبولیت کے لیے سب سے پہلے اور بنیادی شرط شہادت ہے۔ اگر یہ بنیاد مضبوط نہیں، تو کوئی بھی عبادت قابل قبول نہیں ہو سکتی، چاہے وہ روزے ہوں یا نماز یا دیگر عبادات۔
"لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ"
(ترجمہ: "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں"۔)
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى" (سورہ البقرہ 2:256)
ترجمہ: "جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا"۔
یعنی کسی بھی مسلمان کا ایمان تب ہی مکمل ہوتا ہے جب کوئی شخص اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو دل سے تسلیم کرے۔ حدیث میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے۔
"مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ" (مسلم)
یعنی "جس نے "لا الہ الا اللہ" کہا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن اگر اللہ کی وحدانیت اور توحید کی شہادت کا اقرا کسی نے نہیں کیا تو وہ باقی جتنے بھی اسلام کے ارکان کو پورا کرتا پھرے، روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، زکواۃ دیتا پھرے کچھ بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ اسلام میں داخلی کا واحد راستہ اقرار اور شہادتِ وحدانیت (توحید) اللہ جل شانہ سے ہی شروع ہوتا ہے اور اختتام خاتم النبی رسول اللہ ﷺ پہ ہوتا ہے۔ اب آتا ہوں اس عیسائی دوست کی طرف سے پوچھے گئے سوالات میں سے تیسرے سوال پہ۔۔
سوال: بائیبل کی اصل شکل اور نسخہ کہاں ہے (جس زبان میں جو نسخہ نازل کیا گیا تھا)؟ اور وہ کیوں ابھی تک محفوظ نہیں ہوا؟
عیسائیت کا نکتہ نظر: قدیم زمانے سے، بائیبل اور اس کے متنوں کو ایذا رسانی اور تباہی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم اسرائیل کی تاریخ میں پڑھ سکتے ہیں۔ تاہم، خدا نے اپنے کلام کو صدیوں تک محفوظ رکھا، نہ صرف تحریری شکل میں بلکہ مومنوں کے دلوں میں بھی۔ جیسے کہ زبور 119:89 میں کہا گیا ہے، "اے خداوند، تیرا کلام ہمیشہ آسمانوں میں قائم ہے"۔
خدا نے اپنی حاکمیت میں بائبل کو مختلف زبانوں اور شکلوں میں بچا لیا ہے، اور اس کا مقصد پورا ہوا ہے۔ اگر وہ چاہتا کہ کلام صرف ایک زبان یا شکل میں محفوظ رہے، تو وہ یقیناً ایسا کرتا، جیسے کہ اس نے موسیٰ کو دو بار شریعت کی تختیاں دی تھیں (خروج 34:1): "اور خداوند نے موسیٰ سے کہا: پہلی تختیوں کی طرح دو پتھر کی تختیاں تراش لے، اور میں ان تختیوں پر وہی باتیں لکھوں گا جو پہلی تختیوں پر لکھی تھیں جو تُو نے توڑ دیں۔ لہٰذا، اگرچہ ہمارے پاس اصل متن اپنی بالکل اصل شکل میں نہیں ہے، ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنا کلام ہر شخص کے دل میں لکھتا ہے، اور ایک مخصوص زبان میں کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے اگر اس میں موجود سچائی پر عمل نہ کیا جائے۔
منطقی وضاحت
یہ استدلال کہ خدا نے بائیبل کو مختلف زبانوں میں محفوظ کیا اور اصل زبان یا شکل کی حفاظت ضروری نہیں، کئی فلسفیانہ اور منطقی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی مقدس متن کی اصل زبان میں محفوظ رہنے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایک زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی، بلکہ اس میں موجود ہر لفظ کا ثقافتی، تاریخی اور معنوی سیاق و سباق ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نقطہ نظر سے، جب ہم کسی مقدس متن کو اصل زبان میں رکھتے ہیں، تو ہم اس کے اصل مفہوم اور روحانی گہرائیوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ زبان محض ترجمے کی چیز نہیں ہوتی، بلکہ ہر زبان کی اپنی مخصوص ساخت اور خاصیت ہوتی ہے۔
ایک اہم مثال ارسطو اور افلاطون کے فلسفیانہ متنوں کا ہے۔ ان کے کاموں کا جب لاطینی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا، تو اصل متن کے کئی دقیق نکات ترجمہ کے دوران ضائع ہو گئے۔ نتیجتاً فلسفیانہ بحث و مباحثہ میں پیچیدگی پیدا ہوئی، کیونکہ اصل زبان کے گہرے مفاہیم کو ترجمے میں درست طور پر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال یہ لیں جب ارسطو کے کام میں "میٹا فزکس" کی اصطلاح "اوسیا" ہے، جس کو یونانی زبان میں "وجود یا جوہر" کے معنوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ جب اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو اسے "سبسٹانس" کے طور پر پیش کیا گیا، جو کہ ایک مختلف مفہوم رکھتا ہے۔
یونان میں "اُوسیّا" ایک زیادہ پیچیدہ اور وسیع فلسفیانہ تصور تھا، جو وجود کی گہرائی اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا تھا، جبکہ "سبسٹانس" لاطینی زبان میں زیادہ مادی اور ٹھوس مفہوم رکھتی تھی۔ اس ترجمہ کی وجہ سے فلسفیانہ مباحث میں ارسطو کے اصل نظریات کا مفہوم بگڑ گیا اور بحث میں ابہام پیدا ہوا، کیونکہ اصل زبان کے گہرے اور نازک نکات درست طریقے سے منتقل نہیں ہو سکے۔
اسی طرح، مذہبی متون کی اصل زبان میں حفاظت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی مثال لی جا سکتی ہے۔ قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا گیا اور صدیوں سے عربی زبان میں ہی محفوظ رکھا گیا ہے، تاکہ اس کی معنوی اور لفظی درستگی میں کوئی فرق نہ آئے۔ قرآن کے ہر لفظ کو ویسے کا ویسا محفوظ رکھا گیا، تاکہ اس کا پیغام نہ صرف روحانی طور پر، بلکہ لغوی اور تاریخی سیاق و سباق میں بھی برقرار رہے۔ اگرچہ قرآن کے مختلف زبانوں میں ترجمے موجود ہیں، لیکن ان ترجموں کو اصل متن کے برابر نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ ترجمہ ہمیشہ اصل متن کے معنی کو مکمل طور پر منتقل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مذہبی سچائیاں محض الفاظ کی ترتیب سے نہیں، بلکہ الفاظ کے پیچھے موجود مفہوم سے سمجھ میں آتی ہیں، اور یہ مفہوم تبھی درست طور پر منتقل ہو سکتا ہے جب اصل زبان میں متن موجود ہو۔ لہذا، یہ کہنا کہ اصل زبان غیر ضروری ہے، منطقی طور پر درست نہیں ہے۔
یہی اصول بائبل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر خدا نے بائبل کو ایک خاص زبان میں نازل کیا، تو اس کی اصل زبان اور متن کا تحفظ لازمی ہے تاکہ مفہوم کی درستگی برقرار رہے۔ یہاں پر ایک منطقی سوال یہ اٹھتا ہے: اگر خدا نے موسیٰ کو دوبارہ تختیاں لکھوائیں (خروج 34:1)، تو کیا یہ اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ اصل متن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے دوبارہ محفوظ کیاجائے؟ اگر اصل زبان اور متن غیر اہم ہوتے، تو خدا نے موسیٰ کو نئی تختیاں کیوں دیں؟ یہ دلیل کہ دل میں سچائی ہو اور زبان کی پرواہ نہ کی جائے، ایک سطحی سوچ کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ اس میں اصل زبان اور متن کی معنوی طاقت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ایک اور فلسفیانہ نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف زبانوں میں ترجمے ہی کافی ہوتے، تو دنیا کے بڑے فلسفی اور مفکرین اپنی تصانیف کے ترجمے کو اتنی اہمیت کیوں دیتے؟ مارٹن ہیڈیگر، جنہوں نے "وجود اور وقت" (Being and Time) جیسی فلسفیانہ تصنیف لکھی، اپنے کام کے ترجمے کو بار بار خود ملاحظہ کرتے رہے تاکہ ان کے اصل خیالات صحیح طور پر منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح، مذہبی متون کی درستگی اور اصل مفہوم کا تحفظ بھی ضروری ہے، کیونکہ ترجمے کے دوران بہت سے نکات ضائع ہو سکتے ہیں یا غلط طریقے سے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
مذہبی وضاحت: بائیبل کی اصل زبان
عہد نامہ قدیم: (Old Testament)
عہد نامہ قدیم بنیادی طور پر عبرانی زبان میں لکھا گیا تھا، جس میں کچھ حصے ارامی زبان میں بھی شامل ہیں۔ یہ کتب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء پر نازل کی گئی تھیں۔ جو تقریباً دسویں صدی عیسوی میں مکمل ہوا، اس کا ماسوریتک ٹیکسٹ مستند متن ہے۔ یہ نسخہ یہودیوں کی دینی روایات کے مطابق محفوظ کیا گیا تھا۔
عہد نامہ جدید: (New Testament)
عہد نامہ جدید کی تحریری زبان کوئنی یونانی تھی، جو ایک عام زبان تھی جو عیسائیت کے آغاز کے دور میں رائج تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل زبان اگرچہ ارامی تھی، لیکن ان کی تعلیمات اور واقعات کو بعد میں یونانی زبان میں محفوظ کیا گیا۔ (سٹینڈفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی)۔
بائیبل کے محفوظ رکھنے کے مسائل
تاریخی نسخے
ڈیڈ سی سکرالز (Dead Sea Scrolls) جیسے تاریخی نسخے عہد نامہ قدیم کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ قدیم یہودی مخطوطات کا ایک اہم مجموعہ ہے۔ جو 1947 اور 1956 کے درمیان بحیرہ مردار کے قریب موجود غاروں سے دریافت ہوا تھا، خاص طور پر قمران کے علاقے سے۔ یہ مخطوطات تقریباً 200 قبل مسیح سے 100 عیسوی تک کے زمانے کے ہیں اور یہودی تاریخ، مذہب اور صحائف کے حوالے سے بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں عبرانی بائبل عہد نامہ قدیم کے کچھ قدیم ترین نسخے شامل ہیں، جن کی عمریں 2,000 سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ ان مخطوطات میں بائبل کی تقریباً تمام کتابیں موجود ہیں، سوائے کتابِ ایسٹر کے۔
بائبل کے علاوہ بھی بہت سے مخطوطات پائے گئے ہیں، جن میں یہودی فرقے ایسٹر کے لٹریچر، مذہبی رسومات، قانون اور نظریات شامل ہیں۔ یہ مخطوطات یہودی تاریخ کے اس دور کی مزید تفہیم فراہم کرتے ہیں۔ یہ مخطوطات اس زمانے کے یہودی مذہبی فرقوں اور عقائد کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر اس دور میں جب عیسائیت کا آغاز ہوا۔ ان مخطوطات کی دریافت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بائبل کے نسخے وقت کے ساتھ زیادہ تر ویسے ہی محفوظ رہے، جیسا کہ آج ہمیں ملتے ہیں۔ یہ طومار اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ ان کے ذریعے یہ جاننا ممکن ہوا کہ بائبل کے نسخوں میں وقت کے ساتھ ساتھ کیا تبدیلیاں آئیں اور کس طرح مختلف روایات نے بائبل کے موجودہ متن کو متاثر کیا۔
بائیبل میں تبدیلیوں کے متعلق دنیا میں مختلف ریسرچ ورک ہوچکا جو سب اس بات کو ثابت کر چکے ہیں کہ کیسے اور کیونکر بائیبل کے موجودہ ورژن میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ میں ان میں چند اک کو درج زیل میں مختصرا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔