Islam Aur Isaiyat (5)
اسلام اور عیسائیت (5)
میں ایسے ہی موبائل میں سکرولنگ گردی کر رہا تھا کہ اس نے میسج میں اک ویڈیو نعت بھیجی جس سے ربیع الاول کا پیغام جھلک رہا تھا اور بعد میں باقاعدہ مبارک باد کا میسج بھی موصول ہوا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے بھی اخلاقا مبارک باد پیش کردی مگر میں اندر سے کڑ رہا تھا، کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اور چپ رہ بھی نہیں سکتا، بالآخر میں نے میسج بھیجا کہ۔۔
میسج: "مسلمانوں کا بھی ربیع الاول شروع ہوا اور اسکے بعد عیسائیوں کا کرسمس ہوگا، یہ دو ہی آسمانی مذاہب ہیں جو اپنے پیغمر کے ولادت کا جشن مناتے ہیں۔
جواب: اس نے ذرا کرخت انداز سے رپلائی کیا، "مسلمانوں کا عیسائیوں کے کرسمس سے مطلب۔۔ "
میسج: مطلب تو کوئی نہیں۔۔ ہاں یکسانیت ضرور ہے۔
جواب: تو، تمہارا مطلب کیا ہے؟ تم عیسائیوں کے رنگ ڈھنگ میں تبدیل تو نہیں ہو رہے ہو؟
میں نے اس بات پہ چھوٹا سا قہقہ لگایا اور اس نے دوبارہ میسج کیا۔
جواب: "کیوں خود کو فضول میں ضائع کر رہے ہو؟ دوسروں کے مذآہب میں دلچسپی لے رہے ہو؟ ہمیں کیا ضرورت ہے؟
میسج: ہمیں ضرورت ہے، نہیں تو خطبہ حجۃالوداع پڑھ لو اک بار پھر۔
جواب: جس راستے پر چلنا ہی نہیں تو اسکا راستہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت؟ میں سب نبیوں پہ ایمان رکھتی ہوں۔ وہ اپنے اپنے وقت میں آئے اور دین کی سمجھ دی مگر جب میرے آخری نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور نبوت کی مہر لگ گئی اسکے بعد ہم کیوں پیچھے کی طرف دیکھیں؟ میرے پاس وقت نہیں کہ تم سے ان باتوں پر بحث کروں اور پھر چل دیے۔۔
میں سوچ میں پڑھ گیا کہ جن لوگوں کے پاس ایسے باتوں اور کاموں کے لیے بہت سارا وقت ہوتا ہے جن کو نہ کرنے کا ترغیبی رجحان اسلام میں زیادہ زیادہ ملتا ہے۔ لیکن انسان کی فطرت یہی ہےکہ جس کام کو نہ کرنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہو وہاں پہ وہ اپنی تجسس کے گھوڑے میدان میں اتارے گا ضرور چاہے کچھ بھی ہو۔ ربیع الاول منانا کیسا ہے؟ سر دست یہ مرا موضوع نہیں، لیکن ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ہم کو جس کام کے لیے آقا نے ترغیب ہی نہیں دی، جو کہ اصحاب سے اس صورت میں تو بلکل ہی ثابت نہیں جس شکل میں آج واویلا کیا جا رہا ہے اس کو اپنانے میں سر توڑ محنت اور لگن دکھا اور لگا رہے ہوتے ہیں اور اس کے لیے وقت بھی بصیار دستیاب ہے۔
لیکن جس کام کی خاتم النبین نے خطبہ جحۃ الوداع میں ترغیب و تلقین تین بار فرمائی، اس پہ بات کرنے کے لیے، اس کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ کسی بھی دوسرے مذہب کے بارے میں چاہے عیسائیت ہو، ہندو ازم ہویا جو بھی ہو کے متعلق پڑھنا اور بات کرنا کوئی کفر کی بات نہیں۔ اس دین و مذہب کو پڑھ کر، ان کے عقائد کو سمجھ کر اور پھر ان کا منطقی، عام فہم اور شریعت اسلامی کے زیر اثر رہ کر ان کے جوابات دینا، لکھنا یا سمجھانا ہی دراصل میں دعوت تبلیغ ہے، اسلام کی اشاعت ہے۔
واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف اور آج ہم اس بات پہ عقلی اور منطقی سخن میں رہ کر متی، لوقا کے اناجیل کی حیثیت اور ابراھیم و داود سے بقول اناجیل کے کئے گئے وعدوں پہ شرعی اور منطقی دلائل رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ متی اور لوقا کی تھیولوجیکل اور تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اس کے بعد ہم اس میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت داودؑ کے متعلق موجود تصور کی لاجک اور منطق سے جانچ بین کرینگے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ متی (میتھیو) کون تھا؟ اور اسکے تصنیف کی تاریح و مذہبی اعتبار سے کیا حیثیت تھی؟
متی اور اس کی کتاب "انجیل متی" کی تاریخی اور مذہبی اہمیت عیسائیت میں نہایت اہم مقام رکھتی ہے۔ تاریخی طور پر، متی کو حضرت عیسیٰؑ کے بارہ حواریوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور روایتی طور پر انہیں اس انجیل کا مصنف مانا جاتا ہے۔ تاہم، جدید تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انجیل متی غالباً حضرت عیسیٰؑ کے واقعہ صلیب کے کئی دہائیوں بعد لکھی گئی اور یہ معلوم نہیں کہ آیا اس کا مصنف حقیقی متی تھا یا کسی دوسرے نامعلوم فرد نے یہ انجیل لکھی۔
کتابِ متی کی تاریخی اہمیت
انجیل متی کو عام طور پر پہلی انجیل سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب حضرت عیسیٰؑ کی زندگی، ان کے اقوال و افعال، ان کے معجزات، مصلوبیت اور قیامت کے بارے میں تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب عیسائی دنیا میں اسے ایک مقدس اور الہامی کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہ کتاب انجیل میں پرانے عہد نامے کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اس کتاب میں حضرت عیسیٰ کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو یہودی شریعت کو پورا کرنے آئے تھے اور یہ اس لیے کہا گیا ہے تاکہ یہودیوں کو قائل کیا جا سکے کہ حضرت عیسیٰ وہی مسیحا ہیں جن کا پرانے عہد نامے میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اسلامی نقطہ نظر سے، اس کتاب اور اس کے مصنف کے حوالے سے کئی سوالات اور اعتراضات موجود ہیں جنہیں ہم یہاں منطقی اور الہامی تناظر میں دیکھیں گے۔
متی کی کتاب کا مصنف
مسیحی روایت کے مطابق، متی حضرت عیسیؑ کے اک شاگرد تھے جنہوں نے یہ کتابِ متی کو تصنیف کیا۔ متی جو کہ ایک محصول جمع کرنے والا تھا اور بعد میں حضرت عیسیٰؑ کا پیروکار بن گیا۔ تاہم، جدید محققین اس پر شک کرتے ہیں کہ آیا یہ کتاب اصل میں متی نے لکھی تھی یا نہیں۔
مذہبی یا تھیولوجیکل اہمیت
تھیولوجیکل طور پر، متی کی انجیل میں عیسائی عقائد کی بنیاد رکھی گئی ہے، خاص طور پر حضرت عیسیٰ کی الوہیت، عقیدہ تثلیث اور نجات کی تعلیمات۔ متی کی انجیل میں کئی اہم تعلیمات ملتی ہیں جیسے کہ "پہاڑی وعظ (سرمن آف دی ماونٹین) جس میں حضرت عیسیٰ کے اخلاقی اور روحانی اصول پیش کیے جنہیں عیسائی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
یہ انجیل خاص طور پر یہودی سامعین کو مخاطب کرتی ہے اور حضرت عیسیٰ کو یہودی مذہب کے پس منظر میں پیش کرتی ہے۔ جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ، حضرت داؤد اور حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس کا تولد اک معجزے کے نیتجے میں ہوا اسکا نسب کیسے اور کیونکر بنایا یا پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس انجیل کے مطابق یہ وہی مسیحا ہیں جن کا پرانے عہد نامے میں وعدہ کیا گیا تھا۔ اس انجیل کا ایک اہم مقصد یہ دکھانا ہے کہ حضرت عیسیٰ شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آئے بلکہ اسے مکمل کرنے آئے تھے۔ لیکن یہاں پہ ایک اور منطق یہ حذف کر جاتے ہیں اگر اک لمحے کے لیے مان لیں کہ عیسٰیؑ موسوی شریعت کو منسوخ کرنے نہ نہیں بلکہ مکمل کرنے آئے تھے تو پھر حضرت محمد ﷺ کی ولادت ا ور رسالت سے انکار کی تک کیا بن رہی ہے۔ شریعت اسلام میں بھی اک آدھ سنت اور اصول شریعت عیسوی اور موسوی کے دونوں موجود ہیں۔ تو اگر عیسیؑ کے حوالے سے اس بات کو عقل میں بٹھایا جا رہا ہے کہ عیسیؑ دراصل موسوی شریعت کو پورا کرنے آئے تھے تو پھر شریعتی محمدی کو کیوں نظر انداز اور انکار کررہے ہیں؟
اسلامی تناظر
اسلامی نقطہ نظر سے، قرآن اور حدیث میں کہیں بھی اس کتاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ مزید برآں، قرآن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ تورات اور انجیل میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں اور تحریفات کی گئی ہیں۔ اس وجہ سے، مسلمانوں کے لیے یہ کتاب ناقابل اعتبار ہے کیونکہ اس میں انسانی مداخلت کے شواہد موجود ہیں اور ایسے لوگ جو حق کے پیغام میں اپنی من مانیاں کرتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالئی قرآن میں فرماتے ہیں۔
"تو تمہاری بربادی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی قیمت حاصل کریں"۔ (البقرہ: 79)
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کچھ لوگوں نے الہامی کتابوں میں تحریف کی، اور اس وجہ سے، انجیل کے موجودہ نسخے مکمل طور پر اللہ کا کلام نہیں سمجھے جاتے۔ اس کو اک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کتابِ متی کے مواد کی حقیقت
کتابِ متی میں حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اور معجزات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کتاب میں تثلیث اور حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا قرار دینے کے عقائد بھی پائے جاتے ہیں، جو کہ اسلام کی توحید کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہیں۔
تثلیث کا اسلامی رد
اسلام میں اللہ کی وحدانیت (توحید) پر زور دیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰؑ کو ایک نبی اور انسان مانا جاتا ہے، نہ کہ خدا کا بیٹا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔
"اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے۔ وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو"۔ (النساء: 171)
اسلام میں حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہنا یا ان کی الٰہیت کا قائل ہونا شرک کے مترادف ہے، اور اس لیے متی کی کتاب میں موجود تثلیث کے نظریات اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ایسے ہے جیسے ایک ادارہ ایک ہی سربراہ کے زیرِ نگرانی ہو، لیکن کچھ لوگ بعد میں یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ اس ادارے کے تین سربراہ ہیں، بظاہر یہ ہیں تو تین چونکہ تینوں ایک ہی ادارے کو خدمات دے رہے ہیں اور چلا رہے تو یہ اک ہی ہیں تین نہیں اور یہ تین چونکہ ایک ہیں تو اس لیے تینوں سربراہ بھی ہیں۔ حقیقت میں، ادارے کا صرف ایک ہی سربراہ ہوتا ہے اور باقی افراد اس کے نیچے کام کرتے ہیں۔ تو پھلا ایک نیام میں دو تلواریں کیسے سموئے جاسکتے ہیں؟ اسلام اسی طرح اللہ کو واحد سربراہ مانتا ہے اور حضرت عیسیٰ کو اس کے نبی، نہ کہ خدا کا بیٹا اور ہولی سپرٹ یعنی حضرت جبرائیل کو اللہ کا فرشتہ نہ کہ خدا!
تاریخی اور منطقی اعتراضات
موجودہ انجیل، بشمول کتابِ متی، کو حضرت عیسیٰؑ کے تقریباً 40 سے 70 سال بعد تحریر کیا گیا۔ اس طویل عرصے میں سینکڑوں لوگوں نے زبانی روایتوں کی بنیاد پر ان واقعات کو نقل کیا، جس سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ اصل پیغام میں تحریف اور تبدیلیاں ہوئی ہوں۔ اگر کسی تاریخی واقعہ کا بیان اس واقعہ کے کئی برس بعد کیا جائے اور مختلف لوگوں کی زبانی بیانات کے ذریعے منتقل کیا جائے، تو یہ ممکن ہے کہ اصل واقعات میں تبدیلی آ جائے۔ مثال کے طور پر، ایک مشہور حادثہ یا جنگ کی کہانی اگر سو سال بعد لکھی جائے، تو کیا ہم اسے مکمل طور پر قابلِ اعتبار سمجھ سکتے ہیں؟ اسی طرح، کتاب متی کا معاملہ ہے جسے حضرت عیسیٰؑ کے وقت سے بہت بعد میں لکھا گیا۔۔
اسلام اور کتابِ متی کی حقیقت
اسلام کے مطابق، اللہ نے قرآن مجید کو آخری اور محفوظ کتاب کے طور پر نازل کیا تاکہ پہلے نازل شدہ کتابوں میں کی گئی تحریفات کا ازالہ ہو سکے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے۔
"بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔ (الحجر: 9)
اس آیت کے مطابق، قرآن وہ آخری اور محفوظ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں کی گئی، جبکہ دیگر آسمانی کتابوں میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
الہامی کتابوں میں تحریف کا تصور
اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ تورات اور انجیل میں اللہ کا کلام تھا، لیکن انسانی مداخلت کی وجہ سے ان کتابوں میں تحریف کی گئی ہے۔ اس لیے قرآن اور حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے موجودہ انجیل کو اللہ کا مکمل اور خالص کلام نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ایسے ہے جیسے آپ کے پاس ایک اہم قانونی دستاویز ہو جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترامیم کی جاتی رہیں اور اصل متن کو نقصان پہنچے۔ پھر، ایک وقت آتا ہے جب ایک نئی دستاویز بنائی جاتی ہے، جو تمام پرانی ترامیم کو ختم کرتی ہے اور درست قانونی حیثیت فراہم کرتی ہے۔ قرآن مجید کو اسی طرح ایک مکمل اور محفوظ کتاب مانا جاتا ہے جو پہلی کتابوں کی غلطیوں کو درست کرتا ہے۔
خلاصہ اور نتیجہ
اسلامی نقطہ نظر سے، کتابِ متی اور دیگر اناجیل میں موجود حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اور زندگی کے بعض پہلو درست ہو سکتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کتابوں میں تحریفات اور تضادات پائے جاتے ہیں۔ اسلام میں حضرت عیسیٰؑ کو ایک عظیم نبی مانا جاتا ہے، لیکن ان کی الٰہیت یا تثلیث کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہٰذا، کتابِ متی اور اس جیسے دیگر نصوص کو مسلمانوں کے ہاں بطور الہامی کتاب کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جا سکتا، اور ان کے مواد کو قرآن اور سنت کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔
فرض کریں آپ کو ایک فلسفی کے نظریات پر مبنی کتاب دی گئی ہو، لیکن اس کتاب میں کئی ایسے اضافے اور ترمیمات شامل کر دی گئی ہوں جو اس فلسفی نے خود کبھی بیان نہ کیے ہوں۔ ایسی کتاب کو آپ کس حد تک قابلِ بھروسہ سمجھیں گے؟ یہی معاملہ کتاب متی کا ہے، جس میں حضرت عیسیٰؑ کے اصل پیغام کے ساتھ انسانی اضافات بھی شامل ہیں۔ اسلام میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت داؤدؑ کا مقام بہت بلند ہے۔ دونوں انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے خاص اہمیت اور منصب عطا کیا اور ان کے ساتھ کچھ وعدے کیے۔ لیکن اسلام میں یہ وعدے نسل یا قومیت کے بجائے انبیاء کی ذمہ داری اور ان کے کردار پر مبنی ہیں۔ قرآن پاک میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ کے نبیوں کا مقصد انسانیت کو ہدایت دینا اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا ہے، نہ کہ کسی خاص نسل یا قوم کو برتری دینا۔
حضرت ابراہیمؑ کا وعدہ
قرآن مجید: اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ سے وعدہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
"اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کیا، تو اللہ نے فرمایا: میں تمہیں انسانوں کا امام بنانے والا ہوں"۔ (البقرہ: 124)
اس آیت میں حضرت ابراہیمؑ کو تمام انسانیت کے لیے امام اور رہنما مقرر کیا گیا ہے۔ یہ رہنمائی کسی خاص قوم یا نسل کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا پیغام عمومی تھا اور اس کا مقصد اللہ کی واحدانیت کا اعلان اور انسانیت کو ہدایت دینا تھا۔
حضرت اسماعیلؑ اور قربانی
حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا ایک عظیم واقعہ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا ہے، جب اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے، لیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیلؑ کی جان بچا لی۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں ہے۔
"پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا، تو اس نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھو، تمہاری کیا رائے ہے؟" (الصافات: 102)
اس واقعے سے حضرت ابراہیمؑ کی فرمانبرداری اور حضرت اسماعیلؑ کی رضا مندی دونوں کی مثال سامنے آتی ہے، جو اسلامی عقیدے میں توحید اور اللہ کے احکامات کی اطاعت کی بہترین علامت ہے۔
حضرت اسحاقؑ: اسلامی عقیدے میں حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاقؑ بھی ایک نبی ہیں اور ان کے ذریعے بھی اللہ کی برکت کا نزول ہوا۔ انبیاء کا ایک لمبا سلسلہ حضرت اسحاقؑ کی نسل سے شروع ہوتا ہے، جس میں حضرت یعقوبؑ اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء شامل ہیں۔
حضرت داؤدؑ کا وعدہ
قرآن مجید اللہ تعالیٰ حضرت داؤدؑ سے وعدہ کرتے ہیں۔
"اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو"۔ (ص: 26)
اس آیت میں حضرت داؤدؑ کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں انصاف کرنے کا حکم دیا۔ اس میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت داؤدؑ کو سیاسی اور عدالتی معاملات میں رہنمائی کرنے کا منصب دیا گیا، لیکن کوئی دائمی بادشاہت یا مسیحیت کی طرح خدا کے بیٹے یا تثلیث کا تصور نہیں ہے۔
منطقی وضاحت۔
اسلام میں حضرت داؤدؑ کو اللہ کا نبی اور خلیفہ سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق انصاف اور عدل کا نظام قائم کیا۔ ان کی بادشاہت دنیاوی تھی، اور ان کا کام لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا تھا۔ ان کا کردار ایک نبی اور حاکم کا تھا، اور ان کی حکمرانی خدا کے حکم سے تھی، نہ کہ اس میں کوئی الٰہی صفات شامل تھی جیسا کہ عیسائی عقائد میں حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے۔
اسلام میں انبیاء کا مقام۔
اسلام میں تمام انبیاء کو برابری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور قرآن پاک میں کئی مقامات پر انبیاء کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی۔ " (البقرہ: 136)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کا کام ایک تھا۔ انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا۔ اسلام میں نبیوں کو معصوم اور اللہ کے منتخب کردہ بندے مانا جاتا ہے، اور ان کا کام ہدایت دینا اور انسانوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ دکھانا ہے۔
نتیجہ: اسلام میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت داؤدؑ کے ساتھ کیے گئے وعدے انسانیت کی ہدایت اور اللہ کے احکامات کے نفاذ کے بارے میں ہیں، نہ کہ کسی نسل یا قوم کو دائمی بادشاہت یا برتری دینے کے بارے میں۔ قرآن مجید میں یہ وعدے اور ذمہ داریاں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں، اور ان سے انبیاء کے مقام و مرتبہ اور ان کی ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی اور حضرت اسحاقؑ کی نسل سے انبیاء کا طویل سلسلہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نبیوں کا مقصد ہدایت دینا اور اللہ کی بندگی کی طرف بلانا ہے۔
جاری ہے۔۔