Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Islam Aur Isaiyat (2)

Islam Aur Isaiyat (2)

اسلام اور عیسائیت (2)

موضوع کے حوالے سے میری تمہید شائد معمول سے زیادہ لمبا ہوگئی۔ مگر یہ درپیش حالات اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی طرف سے پوچھے گئے کراس سوالوں کے جواب کی صورت میں ناگزیر بن گیا تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سوچ، فکر اور رویہ ہے۔ یاد رکھیں یہاں پہ کسی مذہب کی توہین کرنا مقصد ہرگز نہیں۔ بلکہ یہاں پہ یہ سمجھنے کی، دعوت دینے کی کوشش مطلوب ہے کہ کونسا دین اصل دین حق اور دین الٰہی ہے۔ بطور مسلمان ہم اگر اسلام کو مانتے ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہیں تو ایک ایمانی تعلق، جذباتی تعلق کے علاوہ منطق اور فہم کیا ہے؟ کیا اللہ کریم نے اپنے محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کو اور اسی کے طفیل ساری کائنات کو بغیر کسی منطق اور فہم کے تخلیق کیا؟

ہم مسلمان جو عیسیٰؑ کو بطور پیغمبر مانے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتے مگر اس کو عیسائی برادری کی طرح خدا کا درجہ بھی نہیں دیتے تو کیوں؟ بائبل کو آسمانی کتاب مان کر اپنے ایمان کی تکمیل کی تصدیق توکرتے ہیں مگر وہی عیسائی برادری جب بائبل کو اب تک سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو ان سے اختلاف کرتے ہیں کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہیں تو نازک، لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ان کو سن کر ہمارا ایمان ڈگمگا جائے۔ کیا ہم نے قرآن میں نہیں پڑھا؟ اللہ کریم نے تو قرآن میں بارہا عقل سے کام لینے، تدبر سے کام لینے، فکر کو بروئے کار لانے کی تلقین فرمائی ہے۔

میں اب تک حیران ہوں کہ مجھے جب عیسائی دوست کی طرف سے سوالات آئے جو اس سلسلے کا موضوع سخن بنا۔ تو میں نے اپنے ان تمام دوستوں سے شئیر کیا جو کتاب سے اور قلم سے محبت اور انس رکھتے ہیں۔ مجھے حیران اس بات نے کر دیا کہ ابھی تک مجھے کسی اک کی طرف سے بھی وہ منطقی جواب موصول نہیں ہوا جسکی مجھے تلاش ہے۔ یا تو مری طرح کسی نے آج تک اس زاویے سے سوچا ہی نہیں اور یا پھر اس کا سرے سے مری طرح کسی کو علم ہی نہیں۔ بلکہ سونے پہ سہاگا یہ کہ آج اک معزز اور نمازی، حاجی دوست سے انہی سوالوں پہ جب تھوڑی دیر کے لیے میسجز کا تبادلہ ہوا تو مجھے جواب میں کہنے لگے کہ یہ تم کن بحثوں میں پڑ گئے ہو؟ اور پھر اسکی طرف سے وہی ایمانی تعلق اور جذباتی انسیت والے جوابات آنے شروع ہوئے۔ میں نے سوال داغا کہ کیا یہ سارے جوابات کسی غیر مسلم کی تشنگی کو تشفی دے سکتی ہے؟ توفرمانے لگے نہیں اور اس کے بعد ان کے میسجز کچھ یوں آنے شروع ہوئے۔

"سلمان یہ جو یہودی عیسائی ہیں یہ ہدایت یافتہ لوگ نہیں ہیں۔ اس لیئے ان کی باتوں پر نہ سوچو"۔

"تو پھر تم کسی ایک یہودی کو یا عیسائی کو مسلمان کرکے دکھاو۔ یار یہ لوگ مسلمانوں کے پکے دشمن ہیں یہ کبھی ہمارے دوست یا بھائی نہیں ہوسکتے"۔

"ہمارا دین ہمیں ہمارے نبی کریم ﷺ پر کوئی سوال اٹھانے کی تعلیم نہیں دیتا"۔

"فکر و فہم اپنے دیں بچانے کی اور دین کو سمجھنے کی کرو، سوال اٹھانے کی نہیں"۔

"بس یہ مثال دو لوگوں کو کہ جب معراج پر تشریف لے گئے تب دنیا کیوں رک گئی"۔

یہ وہ عمومی رویہ ہے اور یا ہماری شائد سمجھ ہی یہی ہے کہ ہمارے اپنے دین کے متعلق اگر ہم سے کسی نے نازک سوال پوچھا، یا ہم نے کوئی سوال اپنے ہی دین کے متعلق اٹھایا تو بس ایمان ڈگمگانے لگ جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا دین ہمیں ہمارے نبی ﷺ پہ کسی قسم کا سوال اٹھانے کی تعلیم نہیں دیتا، اور میں اٹھا بھی نہیں رہا۔ میری تو اتنی بھی اوقات نہیں کہ میں محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کی شان میں ادبی ہدیے صحیح طور سے پیش کرسکوں تو سوال اٹھانا تو اللہ کی پناہ۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی غیر مسلم ہمارے نبی علیہ الصلواۃ والسلام کے ذات اقدس کے متعلق کوئی سوال پوچھے تو کیا ہمیں بس یہ کہہ کر " کہ ہمارا دین کسی قسم کا سوال اٹھانے کی تعلیم نہیں دیتا" چپ سادھ لینی چاہیے؟

کیا وہ جو قرآن نے تعلیم دی ہے وما علینا الالبلاغ کا مطلب یہی ہے کہ سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہے؟ اور کیا اسلام واقعی غیر منطقی اور عقلی قضیوں سے سمجھ میں نہ آنے والا دین ہے؟ بس اس پہ ایمان لاکر سوال اٹھانا یا اٹھے ہوئے سوالوں کے جواب کی تلاش کرنے کی تعلیم و اجازت نہیں ہے، کہہ کر خاموش بیٹھ جانا چاہیئے؟ شکر الحمدللہ، صد الحمدللہ ہماری ولادت اک مسلمان گھرانے اور نبئی رحمت ﷺ کے امتی ہونے کی حیثییت سے ہوئی ہے۔

سوچیں ذرا! اگر ہمارا معاملہ بھی اس کے برعکس ہوتا (معاذاللہ ثم معاذاللہ) اور کسی غیر مسلم گھرانے میں آنکھ کھولتے اور جو لوگ آج غیر مسلم ہیں وہ مسلم ہوتے اور یہی سوچ لے کے جیتے رہتے کہ یہ یہودی اور عیسائی ہدایت یافتہ لوگ نہیں ہے، یہ ہمارے بھائی اور دوست نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ابلاغ کے کام کو بس مسلمانوں کے ہی مسجدوں میں اک رٹو طوطے کی مانند رٹی رٹائی تقریریں اور بیانات کرتے رہتے اور منبروں پہ بیٹھ کر اپنے پیر و مرشد کے عجوبہ نما دیومالائی کہانیاں اور ان کی شان میں زمین و آسمان کی قلابیں ملانے میں مگن رہتے اور سمجھتے کہ ابلاغ کا کام ہو رہا ہے۔

میں اور آپ غیر مسلم (معاذاللہ ثم معاذاللہ) ہوکر، اس عیسائی دوست کی مانند کسی پادری کے ہاتھوں یا معلمہ کے ہاتھوں کلیساؤں کی چار دیواری کے اندر مجسموں کے میں گمنام اور تنہا گرے پڑے رہتے اور منطق و فہم کی رو سے دین الٰہی اور حق کی تلاش میں سرگرداں رہتے تو کیا ہم کبھی اپنی منزل پہ پہنچتے؟ ہرگز نہیں، اس لیے تو خطبہ حجتہ الوداع پہ محبوب مدنی ﷺ نے اعلان عام فرمایا کہ جو یہاں موجود ہے وہ ان تک یہ بات پہنچائے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ لیکن معاذاللہ یہاں تو مسلمانوں کے ہاں اپنے ایمان اور عقیدے کے لالے پڑے ہوے ہیں۔ میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ غیر مسلموں سے زیادہ تو شائد جو ہم مسلمان ہیں ان کو دین کی تبلیٖغ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قرآن جو ہدایت کا ابدی سرچشمہ ہے اس پہ کچھ ٹھیکداروں نے یہ کہہ کہ قدغن لگائی ہوئی ہے کہ ایمان ڈگمگا جائے گا معاذ اللہ اگر خود سے ترجمہ کیا تو۔

ایسے میں ان غیر مسلموں کو کیونکر باطل چیزوں اور طاقتوں میں لذت، انسیت، لگاؤ اور راست بازی نہیں دکھے گی کہ جو مسلمان یہ اس دعوی کا علم لیے گھوم رہے ہیں کہ اسلام ہی ابدی ہدایت یافتہ راستہ اور دین حق ہے۔ لیکن ان کے احوال و افکار سے لگتا تو نہیں۔ یہاں پہ ان سب باتوں کا مقصد نہ تو اپنی طرم خانی دکھانی ہے اور نہ کسی کو گھیسٹ کر مسلمان کرنا درکار ہے۔ کیونکہ یاد رکھیں بطور مسلم ابلاغ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ہم پہ بس یہی ذمہ داری عائد ہوئی ہے۔ باقی کسی کو ہدایت دینا کسی کے ہاتھ میں اور بس میں نہیں اور نہ ہی ہدایت ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے منسوب ہے، حتی کہ نبیوں کی بھی نہیں۔ تبھی تو محبوب پاکؑ کو جب محسوس ہوا اور غمزدہ اور فکرمند ہوئے کہ جو دعوت و تبلیغ کے بعد بھی ایمان ان کے دلوں کے اندر جہالت کی تاریکی کو ختم نہں کر پار ہی تھی۔ تب اللہ کریم نے محبوب پاک ﷺ کو فرمایا کہ اے محبوب رنجیدہ نہ ہوں، آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے، پیغام رسانی کرنی ہے، ہدایت اللہ کا کام، جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے نہیں دے۔ (مفہوم)

میں یہاں پہ ایک اور بات کرتا چلوں کہ نہ تو میرئی بساط ہے، نہ اوقات اور نہ کوئی منصب جو کہ یہ سب لکھ رہا ہوں۔ یہ بس میری سمجھ اور رائے ہے جو میں دین اسلام کو سمجھا ہوں اور دوسرے مذاہب کو دیکھتا ہوں۔ اس سے ہر کسی کو اختلاف کا حق حاصل ہے اور اس میں، میں جو تنقید یا لفاظی کر رہا ہوں کسی بھی مکتبہ فکرپہ تو اس سے بھی ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں متعصب ہوں۔ بلکہ میں اپنی طرف سے اس رخ پہ سوچنے کا زاویہ درست کرنے کی سعی کر رہا ہوں کہ اسلام فقط کچھ مخصوص اعمال کا نام نہیں اور پھر بالخصوص ایسے اعمال جن کی نہ تو منطق سے سر جڑتا ہے اور نہ پیر۔ بلکہ یہ دین ایک مکمل ضابط حیات ہے کچھ مخصوص من مانی اعمال کا مجموعہ نہیں۔ یہ عقل اور منطق کے ہر زاویے پورا اترا ہوا دین ہے۔

عیسایئت: میں نے اوپر اتنی لمبی تمہید باندھی اور اسلام کے ماننے والے میرے اپنے دینی بھائیوں کے فکری، دینی اور ذہنی خدوخال کا اک ادھ ادھورا، ٹیڑھا میڑھا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ پھر جب میں نے اپنی توجہ عیسائیت کی طرف کی اور اس کو سننا، کہیں پڑھنا اور سوچنا شروع کیا تو میں حیرت کے ریگستان میں اس مسافر کی مانند کھڑا ہوگیا کہ جو اپنا راستہ بھی کھو چکا ہو اور ضروریات زندگی کا موجود ذخیرہ بھی ختم کرچکا ہو اور بس اب وہ کھڑا اپنے موت کو آنے والے ساعتوں میں سوچ سوچ کے خود ہر پل میں ہزار بار مرتا ہوا محسوس کر رہا ہوتا ہے اور ابھی میں جب اس موضوع کا اختتام کرونگا تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی یہئی محسوس ہوگا کہ ہماری عیسائی برادری اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔

میں نے عیسائیت سے اس لیے ابتداء کی، کیونکہ نزول کے اعتبار سے عیسیٰؑ محمد ﷺ سے پہلے آئے تھے۔ اسلام میں دین عیسیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کا تذکرہ ملتا ہے، اور بائبل کا بھی۔ لیکن دنیا کا عمومی اصول یہ ہے کہ کسی بھی چیز پہ چاہے فلسفہ ہو یا منطق کسی بھی قسم کی بحث کرنی ہو تو آپ پہلے فریقین کو، اور پھر فریقین اپنے سبجیکٹ کو ڈیفائن کرتے ہیں کہ کون کونسے سبجیکٹ پہ بحث ہوگی اور اس کی دلالت میں ہرفریق اپنے شواہد کو پیش نظر رکھتا ہے کہ جو فریق جو دلائل پیش کرے گا اس کی دفاع وہ کونسے شواہد سے کرے گا اور اب تک کے جتنے بھی اسلام اور عیسائیت پہ سکالرز کے مکالمے ہوئے ہیں تو قریبا ہر مسلم سکالر نے یہ سوال ہر عیسائی سکالر سے پوچھا ضرور ہوگا کہ ہم آپ سے یا آپ ہم سے کونسے بائبل سے مناظرہ کروگے، دلائل پیش کروگے۔

یہاں میں بھی کشمکش میں مبتلا ہوں کہ کونسے بائبل کے دلائل کو دیکھوں، پڑھوں اور سنوں؟ کیونکہ عیسائیت میں آج تک ہی شاید اکثریت کو، جو خود کو عیسائی پیروکار مانتے ہیں معلوم ہوگا کہ اب تک بائبل کی کتنی ورژن یا کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ (یہ میرا اندازہ ہے جو کہ غلط یا کم و بیش ہو سکتا ہے) آپ چاہے گوگل کریں، اے آئی کا سہارا لیں یا کسی بھی سکالر کو سنیں تو ان سب کے بقول اب تک عیسائیت کے چار بڑے گروپس بنے ہیں، دو ٹیسٹیمن ہیں (اولڈ یعنی پرانا ٹیسٹیمن اور نیو یعنی جدید ٹیسٹیمن)، اور ہر اک گروپ کے اپنے عقائد کے حساب سے دو درجن سے زائد بابئل کی کتابیں ہیں۔

1) پروٹسٹنٹ بائبل: اولڈ (پرانا) ٹیسٹیمن 39 کتابیں، نیو (جدید) ٹیسٹیمن 27 کتابیں۔ کل 66 کتابیں۔

2) کیتھولک بائبل: اولڈ (پرانا) ٹیسٹیمن 46 کتابیں، نیو (جدید) ٹیسٹیمن 27 کتابیں۔ کل 73 کتابیں۔

3) ایسٹرن آرتھوڈکس بائبل: اولڈ (پرانا) ٹیسٹیمن 49 کتابیں، نیو (جدید) ٹیسٹیمن 27 کتابیں۔ کل 76 کتابیں۔

4) ایتھوپیئن آرتھوڈکس بائبل: اولڈ (پرانا) ٹیسٹیمن 46 کتابیں، نیو (جدید) ٹیسٹیمن 35 کتابیں۔ کل 73 کتابیں۔

تاریخی روایات کی نسبت یہ بتاتی ہے کہ بائبل "عبرانی " اور "آرامک" زبان میں اتری تھی۔ لیکن زیادہ تر کا جھکاو "آرامک" زبان کی طرف ہے۔ جو کہ اب بہت حد تک ناپید ہوچکی ہے۔

آرامی زبان ایک قدیم سامی زبان ہے جو تقریباً 1200 قبل مسیح کے آس پاس مشرق قریب میں وجود میں آئی۔ سب سے پہلے اسے آرامیوں نے بولا، جو آج کے جدید شام کے علاقے میں رہتے تھے۔ وقت کے ساتھ آرامی زبان پورے مشرق قریب میں پھیل گئی اور ایک رابطے کی زبان بن گئی، جو جدید عراق، ایران، اسرائیل، فلسطین، لبنان، اور ترکی کے علاقوں سمیت ایک وسیع علاقے میں استعمال ہوتی تھی۔ آرامی زبان نیو-آشوری اور نیو-بابلی سلطنتوں کے دوران (تقریباً 8ویں سے 6ویں صدی قبل مسیح) خطے کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اسے فارسی سلطنت نے ایک سرکاری زبان کے طور پر اپنایا۔ پرانے عہد نامے کے کچھ حصے، جیسے دانیال اور عزرا کے کچھ حصے، آرامی میں لکھے گئے تھے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے آرامی زبان بولی، جس سے یہ مسیحی روایات میں تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin