Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Islam Aur Isaiyat (1)

Islam Aur Isaiyat (1)

اسلام اور عیسائیت (1)

یہ میرے سکول کے زمانے کی بات ہے کہ امتحانات ختم ہونے کے بعد میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس چلا جاتا تھا۔ جس علاقے میں وہ مقیم تھے وہ آرمی کا علاقہ تھا اور وہاں کچھ مسیحی برادری بھی مقیم تھی اور ان کے عبادت کے لیے وہاں اک چرچ بھی تھی۔ اس چرچ کے پادری کا بیٹآ مرے والد کا شاگرد بھی تھا اور مرے بڑے بھائی کا دوست و کلاس فیلو بھی۔ ہمارے بڑے کزن ہمارے ہاں سیر و تفریح کے لیے آئے تھے اور ان کو ہم چرچ دیکھانے کے لیے لے گئے۔ میرے بڑے بھائی نے اپنے دوست سے بات کی اور ہم کو اندر جانے کی اجازت مل گئی۔

یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کی میں کسی دوسرے مذہب کے مذہبی عبادت گاہ میں اندر جارہا تھا۔ میں پہلی بار عیسیٰؑ کے ساتھ تثلیث کا عقیدہ رکھنے والوں کے عقیدے سے متعارف ہو رہا تھا۔ عبادت گاہ کے اندر ان کے عقائد کے عین موافق عیسیٰؑ کی زندگی کے مختلف پہلووں کے تصاویر شروع سے لے کر صلیب تک، جو دیواروں پہ آویزاں تھی، اسکا نظارہ کر رہا تھا۔ ذہن اور فہم میں کچھ مبہم اور گڈ مڈ سی بونچال پیدا ہوگئی۔ ہم نے پورے چرچ کا اک چکر مارا اور جب باہر نکلے تو سر میں اک شدید قسم کا بھاری پن محسوس ہو رہا تھا اور سب کا یکساں حال تھا۔ میرا بڑا کزن جو اس وقت ہم سے عمر میں بہت بڑا تھا اور پڑھا لکھا بھی اس نے تھوڑے درش لہجے میں کہا کہ آئیندہ ایسے جہگوں پہ جانے سے گریز کرو۔

اب یہ درد کیوں تھا؟ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ ان تصاویر میں کچھ ایسا جادوئی اثر تھا جو ہمارے سروں پہ بھاری پن کا اثر چھوڑ گیا۔ نہیں اس کی اک وجہ یہ تھی کہ ہم عمر میں چھوٹے تھے اور اک مختصر سے وقت میں بہت زیادہ ایسے تصاویر دیکھے جو ہماری آنکھوں نے دماغ نے کبھی نہ دیکھی تھیں اور نہ ہی سوچی تھیں، اور پھر اس کے ذریعے سے اک اور نئے مذہب اور عقیدے سے آشنائی بھی ہوئی تھی جو اس وقت عمر اور فہم کے لحاظ سے ہمارے لیے بہت بڑی تھی اور ایسے میں سر میں بھاری پن محسوس ہونا بہت ہی عمومی سی بات تھی۔ لیکن وہاں سے نہ جانے کیسے مگر ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ دوسرے مذاہب کے عبادت گاہوں کا دورہ کرنے یا ان کے عقائد کا مطالعہ کرنے سے دماغ فتور پیدا ہونے لگتا ہے۔

یہ وہ متھ تھی اور خوف تھا جو ہمارے ذہنوں میں بیٹھ گیا یا بٹھایا گیا۔ دنیا میں مذہب کے نام اور پیری و مریدی و گدہ نشینی، مسلک پروری کا سکہ خوف کے توسط سے ہی چلتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات جنگل میں آگ کی مانند پھیلائی گئی کہ دوسرے مذاہب کے مطالعے اور حتی کہ قرآن کے مطالعہ اور بالخصوص اسکی تفسیر خود سے کرنے سے انسان گمراہ ہوتا ہے یا تھوڑا اور مہذب انداز میں کہہ لوں کی انسان کے ذہن اور فہم میں فتور پیدا ہونے لگتا ہے۔ تو دوسرے مذاہب کے مطالعے سے تو قطعا گریز کرنا چاہیے اور قرآن کے ازخود مطالعے سے بھی گریز کریں۔ کیونکہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں جماعت اسلامی سے وابستہ تھا تو میں اکثر دوسرے مکتبہ فکرکے مصنفین کے کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہتا تھا اور اکثر تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتا تھا اور مرے گھر میں بزرگ حضرات کو بھنک پڑگئی۔

ایک دن میرے حوالے سے اک چھوٹی سی پنچائیت لگی تھی جس میں میرے والد محترم اور مرے چھوٹے انکل بیٹھے تھے اور کسی طرح سے یہ بات چل نکلی کہ یہ تم آجکل کن محفلوں میں بیٹھتے ہو، میں نے کہا کچھ خاص نہیں بس ہم کچھ دوست مل بیٹھتے ہیں اور پھر قرآن کی اک آیت مختص کرتے ہیں، ہر کوئی اسکا گھر میں مطالعہ کرتا ہے اور پھر اگلی ملاقات میں اسکو سب کے ساتھ شیر کرتا ہے۔ اس پہ میرے چچا محترم کلام گو ہوئے کہ یہ دیکھو، مدرسے میں لوگ 8-8 سال لگاتے ہیں تب جاکے وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ قرآن کا ترجمعہ کرلیں اور یہ لوگ خود سے بیٹھ کرتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ پاگل ہیں کہ اتنا عرصہ مدرسہ میں گزارتے ہیں اور پھر جا کے وہ قرآن کے ترجمعہ جیسی ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرتے ہیں۔

خود سے قرآن کا ترجمہ نہ کیا کرو ورنہ ایمان سے ہاتھ دھونے کی نوبت آسکتی ہے اور یہی وہ خوف ہے جس کے توسط سے ان پڑھ اور بہت سے زعما و جہلا کو ان دین کے چند ٹھیکداروں نے اپنا پیرو بنا لیا ہوا ہے۔ کیا اسلام یا قرآن یا احادیث میں کہیں ذکر ہوا ہے کہ قرآن کا ترجمہ اور اسکے مطالعے کے لیے ہر نفس کو مدرسے میں 8 سال لازما گزارنے ہونگے ورنہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔ نہیں بلکہ قرآن تو اسکے برعکس کچھ اور ہی درس دیتا ہے، سوہ القمر آیت نمر 17 میں اللہ فرماتا ہے، "اور بے شک ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا نہیں"۔

اس سے زیادہ اندھی تقلید کی احمقانہ مثال نہیں مل سکتی۔ قرآن، اسلام اور شریعت اندھی تقلید سے منع فرماتا ہے لیکن ہمارے ہاں آج وہ عہد ابراھیمؑ والا رویہ زندہ ہے اور یہ قباحت بریلویت میں بہت پائی جاتی ہے۔ جب ابراھیمؑ کو اس کے قوم نے کہا تھا کہ اے ابراھیم آپ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیں اور اس خدا کو ماننے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ یہاں پہ بس لفظ بدل گئے ہیں کہ وہ ہمارے اباو اجداد کا پیر خانہ ہے اور تم اب اس کے خلاف جاو گے۔

فرق جان کر خود انصاف کرکے جیو اور اسی خوف سے تو پیر خانوں، گدہ نشینوں کا گورکھ دھندا چلتا ہے اور بس اک بار یہ خوف ان کے دل میں بیٹھ جائے پھر ان سے اپنے ہاتھ چومواوو، پیر دبواو، اور ہزار قسم کے دم پھونک مار کا بازار گرم رکھو اور چل سو چل کی کہانی چلتی آ رہی ہے اور یہ خوف ایسی شدت اختیار کر چکا ہے کہ وہاں کوئی عقیدہ بریلوی، عقیدہ دیوبندی وغیر (یاد رکھیں یہ مکتبہ فکر کہلاتے ہیں عقیدہ نہیں مگر ہمارے ہاں جہل پروری اور لکیر کے فقیری کا یہ حال ہے کہ اک بار کسی صاحب نے کہا ہوگا عقیدہ تو بس عقیدہ ہی چلتا آرہا ہے) کے خلاف آپ کسی قسم کا سوال نہیں اٹھا سکتے۔ اگر جراٰت کی تو بس 21 فتووں کی سلامی آپ کی راہ دیکھ رہی ہوگی۔

میں بذات خود اس رویے کا قائل نہیں ہوں کہ اگر آپ کسی اور مذہب کا مطالعہ کرتے ہو تو آپ گمراہ ہو سکتے ہو۔ یا دوسرے مذاہب کے مطالعے سے گریز کرنا چاہیے۔ اب یہ بات کسی کسی پہ صد فیصد صادق بیٹھتی ہوگی مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس مذہب میں طاقت و کشش ہی اتنی ہے کہ اس کا فقط مطالعہ کرنے سے بھی کسی کے عقائد میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے یا اس کے اپنے مذہبی فہم میں فتور پیدا ہوسکتا ہے، اگر اس شخص کو اپنے عقیدے اور اپنے ایمان کے متعلق تھوڑا بھی کچھ منطق معلوم ہو (یعنی اس کا عقیدہ پختہ ہو) تو اللہ کریم کے فضل سے وہ اس قسم کے ابلیسی وسوسے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔

اگر ایسی بات ہوتی تو میرا ایمان یہ ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ اسلام میں اتنی کشش اورقوت ہونی چاہیئے اور درحقیقت ہے بھی کہ آج تک جس نے بھی مذہب اسلام کا مطالعہ کسی بھی قسم کے تعصب سے ماورا ہو کر کیا ہے تو وہ اسلا م کی طرف راغب ضرور ہوا ہے اور اس کی مثال عہد حاضرمیں غیر مسلموں کا بہت بڑے تعداد میں اسلام قبول کرنا ہے۔ کیونکہ اسلام کا مطالعہ کرنے کی اک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مطالعہ کرنے والے شخص کے اندر تشنگی اور تجسس کی چنگاری سلگا دیتا ہے۔ کیونکہ اسلام کا مذہب فقط اس لیے نہیں کہ یہ اک سچا اور کھرا اور آخری دین ہے (کہ اس کے بعد تا قیامت کوئی اور دین و شریعت نے نہیں آنا)، بلکہ یہ عین انسانی فطرت کے موافق دین ہے۔ اس لیے حدیث پاک میں آتا ہے کہ ہر انسان کو فطرت اسلام پہ پیدا کیا جاتاہے یا پیدا ہوتا ہے (مفہوم)۔ یہاں اک قابل غور نکتہ ہے، فطرت اسلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، دین اسلام پہ پیدا کیا جاتا ہے کہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ کیوں؟

لغت میں"دین" کے معنی ہیں"طریقہ" یا "راستہ"۔ اس کا مطلب وہ نظام یا اصول ہے جس پر کوئی انسان یا قوم عمل کرتی ہے، خاص طور پر مذہب کے سیاق و سباق میں، یہ اللہ کی طرف سے دیے گئے احکام اور تعلیمات کا مجموعہ ہوتا ہے جن پر عمل کیا جاتا ہے۔

جبکہ فطرت، "انسان کی فطرت سے مراد انسان کی وہ پیدائشی خصوصیات، میلانات، جذبات، اور رویے ہیں جو اس کی سرشت یا اصل طبیعت میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی خصلتیں ہیں جو ہر انسان میں قدرتی طور پر موجود ہوتی ہیں، جیسے محبت، نفرت، رحم، غصہ، اور سچائی یا جھوٹ کی پہچان۔ انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی دونوں کی صلاحیتیں شامل ہوتی ہیں، اور حالات کے مطابق انسان ان میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرتا ہے"۔

تو جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی فطرت پہ ہی پیدا کیا جاتاہے کہ اسکا رجحان، میلان سب نیک ہوتی ہیں اور اس کے بعد وقت کے ساتھ اسکی پرورش اور اس کے والدین اسکو جس ماحول اور دین و مذہب پہ ڈالنا چاہیں گے تو وہ اسی میں ڈھلتا جاے گا اور زندگی میں اک لمحہ ہر کسی کو ملتا ہے، جب وہ نیک اور بد میں تمیز کرنا سیکھ جاتا ہے، اچھے اور برے کہ پہچان کر لیتا ہے تب اسکو اس کا ضمیر اس سوال پہ ٹوکتا ہے کہ جو عقیدہ اور مذہب اور جو دین تم مانتے ہو کیا اسکی کوئی حقیقت ہے؟ چاہے وہ اسلام ہے یا کوئی بھی مذہب اور تب جو انسان اپنے اندر کی اس آواز کو سنجیدگی سے سنتا ہے تو وہ اسکی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن جو اس آواز کو سنی ان سنی کرتا ہے تو وہ بھٹکتا ہی رہ جاتا ہے اور اگر وہ مسلمان بھی ہوگا تب جب وہ کوئی ایسی عقلی قضیے میں، فلسفے اور منطق بھرے سوال اپنے مذہب کے متعلق سن لیتا ہے تو اس کا ایمان ڈھگمگانا شروع ہو جاتاہے۔

اسی لیے اللہ نے قرآن نے بارہا فرمایا ہے، " افلا تتفکرون"، "افلا یتدبرون"، "افلا یتذکرون"، " افلا تعقلون" کہ کیا تم فکر نہیں کرتے؟ کیا تم تدبر نہیں کرتے؟ کیا تم تذکرہ نہیں کرتے؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ یہ سب اسی اپنے اندر کی آواز کی طرف دھیان کی دینے کی نشاندہی ہی تو کرائی جار ہی ہے۔ یاد رکھیں اندھے مقلد، آدھورے معلم (عالم) اور ادھورے معالج یہ کسی ایٹم بم سے زیادہ نقصان برپا کرسکتے ہیں۔

اب آتا ہوں عقیدہ یا دین اسلام اور دین عیسایئت پہ۔ یہ میرا زندگی میں پہلی بار ہے کہ میں کسی اور مذہب اور دینی امور پہ قلم دانی کی جراٰت کر رہا ہوں۔ مرے پاس اتنا قوی علم نہیں کہ میں اسکا مکمل احاطہ کر سکوں اور نہ میں دعوی کرتا ہوں کہ میں کر لونگا۔ جیسے کہ میں اپنے پچھلے کالم "اسلام کیا ہے؟" میں اک عیسائی دوست کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اس کی تشنگی کا کہ سچا خدا کون ہے؟ کے سفر میں وہ اس وقت تک دین عیسائیت میں عقیدہ تثلیث رکھنے والوں (یعنی ارتھوڈکس) میں رکی ہوئی ہے۔ لیکن وہ باقاعدہ چرچ جاتی ہے، عبادت کرتی ہے، سچے خدا کی تلاش میں وہ آج بھی ہے مگر اس کو لگتا ہے کہ وہ سچے خدا کو عقیدہ تثلیث میں رہ کر پا چکی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور یہ دعویٰ میں پہلی بار یہاں ذکر کر رہا ہوں، کیوں کہ وہ اس کو بھی اس کے متعلق مرے اس کالم کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا۔

میں کوشش کرونگا کہ یہاں میں اک عام فہم انداز میں اسلام اور عیسایئت کو بیان کرسکوں جس سے شائد انتہائی سطحی سہی مگر بنیادی تصورات کے درست کرنے اور اس کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کرنے کی تجسس اور چنگاری ہر پڑھنے والے کے دل میں سلگ جائے گی جو کہ ہر متجسس اور سنجیدہ انسان شائد پھر سے سچے خدا اور سچے دین کی تلاش اور جستجو کے راستے میں ڈال دے گی۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq