Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Bachiyon Ki Tarbiyat Me Hi Muashre Ki Salmiyat Hai

Bachiyon Ki Tarbiyat Me Hi Muashre Ki Salmiyat Hai

بچیوں کی تربیت میں ہی معاشرے کی سا لمیت ہے

بیچلر آف کامرس کے اکنامکس اور مینجمنٹ سے متعلقہ تھیوری مضامین کے خلاصے پروفیسر سعید خان کے بہت مشہور تھے اور یہ خلاصے عموما طلباء پشاور میں موجود میں اولڈ بک بازار سے لیتے تھے۔ پروفیسر سعید خان کے خلاصوں میں دو بڑی اچھی باتیں تھیں جو مجھے ذاتی طور پر پسند، پہلی کہ وہ نہایت سادہ الفاظ میں لکھی ہوتی تھی یعنی انگلش بھی دیسی انداز سے لکھی ہوتی تھی جو مجھ جیسے پینڈو بندے کو بھی بآسانی سمجھ میں آجاتی تھیں، اور دوسری بڑی بات ہر باب کے آغاز پہ صفحے کے اوپری حصے پہ دانشوروں کے مختلف اور آسان فہم قول لکھے ہوتے تھے۔ انہی میں سے کہیں مجھے ڈیل کارنیگی کا اک قول پڑھنے کو ملا اور مرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا کہ "بچے ہمیشہ سننے سے زیادہ دیکھنے سے سیکھتے ہیں یا بچے آپ کو سنتے نہیں بلکہ دیکھتے ہیں۔"

میں نے جب یہ فقرہ پڑھا تھا تب مجھے اس کی سمجھ تو آگئی تھی لیکن اس کا ادراک مجھے شادی کے بعد حاصل ہوا۔ ہم اپنے اردگرد یہ باتیں عموماََ سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ زیادہ تر والدین اساتذہ کو اپنے ہی بچوں کے بارے میں بتاتے (شکایت لگاتے) ہیں کہ یہ ہماری بات سنتا نہیں او ر بدتمیزی وغیرہ کرتا ہے۔ اور بچے بھی ہمیشہ والدین کی نسبت استاد (ٹیچر) سے زیادہ ڈرتا ہے۔ کیونکہ بچے استاد کو صرف سکول میں مختصر وقت کے لیے دیکھتے ہیں اس لیے ان کا تاثر بچوں کے ذہن میں پڑھانے والا، غلطی کرنے والوں کی اصلاح کرنے والا، سزا و جزاء دینے والے کی روپ میں بیٹھتا ہے۔ جبکہ گھر میں تو وہ اپنے والدین کو ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ جس میں ابا کی امی سے لڑائی اور اماں کی ابا سے معاشی مسائل پہ تلخ کلامی، اماں کا اچھے موڈ میں رہ کر دن بھر میں جمع کی ہوئی غیبتوں اور کانا پھوسی کی تفصیلات وغیرہ دیتے ہوئے دیکھتا اور سنتا ہے۔ یعنی اگر والدین جھگڑالو ہو ئے تو بچہ بھی اسی روپ میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے اور اگر والدین نماز میں ڈنڈ ی مارنے والے ہوں توبچے بھی لازماََ ڈنڈی مارتے ہیں۔ اگر والدین گھر میں گالم گلوچ کرتے ہیں تو بچے بھی لازم اسی عادت کو اپناتے ہیں۔ لیکن یہاں اک او ر بات قابل غور او ر مشاہد ہ ہے کہ بچے کی رغبت ہمیشہ اپنے والد کی طرف جاتا ہے او ر بچی کی رغبت والدہ کی طرف۔ دوسر ے لفظوں میں والدین بچوں کے لیے سانچے کی حیثیت رکھتے ہیں و ہ خود جیسے رہیں گے یا بچوں کو جس روپ میں ڈالنا چاہتے ہیں تو انہیں خود کو اول اس روپ میں ڈھالنا پڑے گا بچے خود بخود ان کی نقل میں ڈ ھل جائیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں نہ تو کوئی دم دارو اور نہ کوئی جھاڑ جھنکار کسی کام آئے گی۔ یقین مانیں ہم نے امیین (اہل) عرب کے سنتو ں کو پھر سے زند ہ کرنا شروع کردیا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ کورے ان پڑھ جاہل تھے اور ہم پڑھے لکھے جاہل۔

اور اس ضمن میں و الدین نے پہلی بڑی کوتاہی و غلطی یہ کی کہ تربیت کی آڑ میں اولاد میں بھی تفریق کر ڈالی یعنی لڑکوں کی تربیت پہ خاصی توجہ دی او ر لڑکیوں کو اس لیے نظر انداز کیا کہ وہ تو ہے ہی پرایا دھن تو چل سو چل کا رویہ رکھا۔ اور ہم قطعاَ َ یہ بات بھول گئے اور یا پھر اس کو بھی ا رادتاََ نظر انداز کیا کہ خاندان، معاشرہ، قوم تو عورت کے ہی وجود سے تشکیل پا تے ہیں۔ علامہ صاحب نے کیا خوب کہا تھا، وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ۔

اب ذرا اک لمحے کے لیے سوچیں کہ جس بیج سے پودے نے جنم لینا تھا، پروان چڑھنا تھا جب ا سکی نشو و نما (تربیت) ہی ٹھیک طرح سے نہیں کی ہو تو اس وجود سے جنم لینے والے پودے (نئی نسل) کیسے توانا اور صحت مند (پڑھی لکھی اور سلجھی) ہو سکتے ہیں۔

اسکے بعد بھی ہم نے عقل کے ناخن نہیں لیے، اور اک اور غلطی کی بنیا د رکھ دی۔ کہ اپنے بچوں کی جنسی مسائل کی تربیت شریعت کی روشنی میں کرنے سے کترانا شروع کیا۔ یاد رکھیں وہ کسی عقل مند نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلیں گے تو کوئی اور آپکے بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دے گا۔ یعنی اگر والدین ہی بچوں کی تربیت و رہنمائی ہر مرحلے پہ نہیں کرینگے تو گلی کے نکڑ پہ بیٹھے او ر لوگ اس کام کا بیڑا اٹھا لیں گے۔ جو آپکے بچے کے اخلا ق اور کردا ر کا بھرکس نکال دینگے۔ اسی طرح اگر بچیوں کی پردہ داری والے مسائل میں ماں شرعیت کی روشنی میں تربیت خود فراہم نہیں کرے گی تو پڑوس میں کوئی ایسی سہیلی اسکی مدد کرنا شروع کر دے گی جو خود تو حیاء اور تمیز کے دائرے چاق کر چکی ہوگی اور آپکی بچی کے عزت کا جنازہ بھی نکال دے گی۔ او ر وہ اولاد جن کی تربیت اہم جنسی مسائل میں گلی کے دوست اور پڑوس کی سہیلیاں کرلیتی ہے ایسے بچے خود اپنی زندگی میں سے سکون و اطمینان کے عنصر کو تو کھو دیتے ہیں اور اپنے سے جڑے لوگوں کا سکون بھی خراب کر دیتے ہیں۔ میں بذات خو د ایسی کئی وقوعوں (جوان لڑکوں و لڑکیوں کے افعال) کا شاہد ہوں اور ذاتی طور پہ زندگی کے اس تلخ اور قبیح دورانیے سے بھی گزرا ہوں جس میں بچے یا بچیاں اخلاقی اقدار سے گرے ہوئے افعال کے مرتکب ہوتے ہیں اور یا پھر گلی کے نکڑ پہ بیٹھے لوگوں کے ہاتھوں چڑھ کر جنسی مسائل کی تربیت عملی طریقے سے حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب اکثریت میں اپنے دوستوں یا سیہلیوں کے دیکھا دیکھی سے متاثر ہوئے ہوتے ہیں۔ میں یہاں بالخصوص بچیوں کی تربیت کے حوالے سے میں چند اک گزارشات پیش کرونگا جس کو تقریباََ ہر والدین کو نہایت سنجید گی سے لینی چا ہیے۔ کیوں کہ بچیوں (جو ہمارے ہاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں) کی تربیت سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ جس کا نقصان بعد میں (شادی کے بعد) والدین شرمندگی کی صورت میں، بچی کی سسرال میں نفر ت و مار دھاڑ کی صورت میں اٹھاتے ہیں۔

بچی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور جو لوگ اللہ کی رحمت پہ شکر ا دا نہیں کرتے تو اللہ جل شانہ ان کے متعلق قرآن میں فرماتا ہے۔ " اور تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کر د یا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔ (سورہ ابراھیم: ۷)

اب بچی کی صورت میں عطا ہونے والی رحمت کا شکر یہ ہے کہ اسکی اچھی اور بہترین تربیت کی جائے۔ جو بچی کا اپنے والدین پہ تیں بنیادی حقوق میں سے اک بنیاد ی حق بھی ہے اور اللہ جل شانہ کی رحمت کا شکر بھی۔ لیکن اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بناء پر ہم یہ (ناشکری) غلطی کر بیٹھتے ہیں اور بعد میں اولاد کی صورت میں اللہ ہمیں اپنے آزمائش میں گرفتار کر لیتا ہے۔ لیکن اچھی تربیت سے مراد فقط بچی کو اچھی عصری تعلیم دلوانا، بڑے لاڈ و پیار سے پالنا یا اسکی ہر خواہش کو پورا کرنا ہر گز ہرگز نہیں۔ بلکہ اچھی او ر بہترین تربیت سے مراد دینی و عصری دونوں تعلیم د لوانا ہے کیونکہ دینی تعلیم سے ہی بچی اپنی اور اپنے سے جڑے لوگو ں کی سماجی زندگی کو سنوار سکے گی یعنی اپنے شوہر اور اس کے گھر عزت قدر و قیمت سے آشنا ہوگی اور آنے والی نسل کی دینی آبیاری بھی بخوبی کرسکے گی۔ اور عصری تعلیم سے اپنے شوہر کی معاشی زندگی میں بہترین مشاورت اور اسکے مال کی صحیح اور مناسب استعما ل میں اسکی سہولت کار بنے گی۔ یعنی اک کامیاب مرد کے پیچھے اک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے کا عملی کردار ادا کرسکے گی۔ یہی نیک اولاد کا وہ تصور ہے جس کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہا گیا ہے اور نیک بیوی جو بہترین متاع کا نمونہ بنتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بڑے پڑھے لکھے اور سمجھ و بوجھ والے والدین اپنی بچیوں کو دوسرے گھر میں بیاہ کر جانے کے حوالے سے تربیت نہیں دلاتے۔ جس کا نتیجہ بعد میں نہایت ہزیمت کا سبب بن جا تا ہے۔ بچیوں کی عصری تعلیم، اچھی رہن سہن، اچھا کھانا پینا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی نہایت سنجیدگی سے تربیت دینی چاہیے کہ کل کو وہ دوسر ے گھر میں بیاہ کر جائے گی۔ یاد رکھیں ہر انسا ن پہ دین کی اتنی تعلیم کا حصول فرض ہے جس کی مدد سے وہ اپنے چوبیس گھنٹے شرعی اصول کے مطابق گزار سکے۔ اور اگر والدین اس فرض کی ادائیگی میں فیل ہوئے تو وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور بچوں کی اس حق و فرض کی ادائیگی کا ازالہ کیسے کر ینگے؟ اپنے ہاتھوں میں ہمہ وقت تسبیح تھامنے اور سفید کرتا پہنے رکھنے سے بچوں کے سارے حقوق ادا نہیں ہوتے۔ قیامت کے دن ہر کوئی اپنی ذمہ داری کے بابت پوچھا جائے گا۔ اور ذمہ داری پوری نہ کرنے والوں سے باز پرس اور پکڑ ہوگی۔ فرمان نبوی ﷺ ہے

" سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر (حاکم) لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کے بہبو د کا ذمہ دار) ہے اس سے ا س کی رعایہ کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (مسلم شریف: 1829)

لہٰذا بچیوں کو دینی تعلیم اولین ترجیح میں دیں۔ نماز، روزہ، قرآن کی تعلیم بمع ترجمہ لازماََ سکھائیں کیونکہ اسکی کوکھ سے اک او ر نسل نے جنم لینا ہے۔

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin