Adab e Zindagi (1)
آداب زندگی (1)
ہر ذی شعور انسان کی خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنے سرکل میں جہاں بھی جائے جن محافل میں بھی شرکت کرنے جائے تو وہاں پہ اسکا ادب کیا جائے وہ ان محافل میں مؤدب ٹھہرے۔ اور اللہ کریم جل شانہ نے بھی انسان کو ادب و احترام والا بنایا۔ جیسے کہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ و لقد کرمنا بنی ادم۔ اور ہم نے آدم کو تکریم و قدر والا بنایا ہے۔ اور اسی لیے انسان کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا۔ اور اسکی اک گواہی سورہ التین میں بھی فرمائی، و لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ تو انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا۔
انسان کی بہترین صورت ہی اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ اللہ کریم جل شانہ نے انسان کو مؤدب پیدا فرمایا۔ تبھی تو عالم ارواح سے روحِ آدم کو تمام مخلوقات سے سجدہ تعظیم کروایا۔ قرآن میں آتاہے۔۔
اور جب فرشتوں سے کہا گیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا۔ (مفہوم) سورہ بنی اسرائیل
یہ ادب و تادیب کا معاملہ ہی تو ہے جو اللہ جل شانہ نے فرشتوں جیسی نوری، ذکر و تذکیر والی مخلوق سے آدم کو سجدہ کرایا۔ لیکن روئے زمین پہ نوع آدم کو بھیجنے کے بعد ادب کے حصول کو، مؤدب ٹھہرنے کو مشروط بنایا۔ اللہ نے یہ درس دیا کہ جو سجدہ عالم ارواح میں باقی مخلوقات سے کروایا تھا وہ دنیا میں ادب کی صورت میں جلوہ گر ہوگا۔ مگر اس سجدہ تعظیم والی ادب کو اس دنیا میں حاصل کرنے کے لیے ہر ذی شعور کو خود کو ثابت کرناپڑے گا۔
پہلے مرحلے میں انہیں خود کو مہذب بنانا پڑے گا۔ کیونکہ تہذیب سیکھے بغیر ادب کا وجود ممکن ہی نہیں۔ اور اسکی جانکاری کے لیے اگر ہم اپنی زندگیوں میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ہم کن کن لوگوں کا اد ب کرتے ہیں اور کن کا نہیں کرتے۔ اور یہ اصول صرف فرد واحد کی زندگی تک محدود نہیں ہوگا بلکہ قوموں کی اجتماعی زندگیوں پہ بھی اس کا اطلاق ایسے ہی ہوگا۔
آج آپ دیکھ لیں کہ دوسری اقوام کی نظر میں ہم بحیثیت قوم کس مقام پہ ہیں اور ہماری کتنی ادب، قدر و احترام ہے۔ کیا وہ ہمیں مؤدب ٹھہراتی ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں وہ ہمیں ادب کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ وہ ہمارا پاسپورٹ تک دیکھ کر ہمیں تذلیل بھری نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم ان کی نظروں میں مہذب قوم نہیں ہیں۔ اور بدقسمتی سے وہ اپنے اس دعوے میں درست بھی ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے گر ہر کوئی اک نظر بھر کر دیکھ لیں اپنے معاشرے میں کہ کیا ہمارے ہاں تہذیب کی رمق بھی پائی جاتی ہے؟
اپنے گھر سے حتیٰ باہر نکل کر گلی محلے میں دیکھ لیں، ہرجگہ گندگی کے ڈھیر، نالیوں کی غلاظت اک تعفن بھرا ماحول کیا یہ سب مہذب اقوا م کی نشانی ہے؟ پھر اپنے بازاروں کاحال دیکھ لیں کہیں پہ کسی قسم کی صفائی نظر آتی ہے؟ ہم تو بس سب کچھ گورنمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر اپنا ذمہ بھر ی سمجھ لیتے ہیں۔ جبکہ اصل گندگی پھیلانے والے ہم ہی ہیں، غیر مہذب عادات و حرکات ہماری ہی ہیں۔
جب ہم اپنے حصے کا کردارادا کریں تب ہم ادارو ں کو اس بات پہ مائل کرسکتے ہیں اور مورد الزام بھی ٹھہرا سکتے ہیں کہ اس گندگی یا کوڑے کے ڈھیر کو دور زائل کرنے کے لیے لے جائیں۔ غرض یہ کہ بحیثیت قوم ہم اک غیر مہذب قو م ہیں۔ ہمیں مہذب بنانے کے لیے اللہ جل شانہ نے قرآن میں ہمیں بتا دیا کہ۔
ہم نے آ پ کے مابین ایسا نبی رحمت ﷺ مبعوث فرمایا جو آپ کو کتاب کا علم سکھاتا ہے، حکمت سکھاتا ہے اور آپ کا تزکیہ کرتا ہے۔
اب تزکیہ نفس کا ہو، جسم کا ہو، گھر کا ہو، محلے کا ہو یا اردگرد کے ماحول کا ہو ان سب کا تزکیہ کرنا سکھاتا ہے۔ اور یہی تزکیہ ہی تہذیب کے دائرے میں لے آتا ہے۔ اور پھر یہی نہیں صفائی کی اہمیت پہ زور دینے کے لیے محبوب مدنی ﷺ نے فرمایا، صفائی نصف ایمان ہے۔
صفائی کو بنیادی عقیدہ (ایمان) کا آدھا حصہ مقرر کیا۔ قابل غور بات ہے کہ اتنی ساری چیزوں میں سے اللہ کریم کے محبوب ﷺ نے صفائی کو ایمان کا آدھا حصہ کیوں مقرر کیا؟ کیوں کہ اللہ جل شانہ اور اسکا حبیب ﷺ ہمیں مہذب دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔ اور جب تک ہم صفائی کو اپنا شعار نہیں بنا لیتے اپنے جسم سے لیکر گلی محلے، دوکان بازار تک اپنے حصے کی صفائی نہیں لاتے تو اقوام عالم میں ہم مہذب نہیں کہلائے جا سکتے۔ اور کملی والے کے فرمان کے مطابق ہم اپنے آدھے ایمان کے تقدس کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔ تو پھر لوگ کیوں کر ہمارا ادب کریں گے؟
2) مہذب بننے کے لیے دوسرا اصول تمیز سیکھنے کی ہے۔ ہمارے ہاں تمیز کا بھی نہایت فقدان ہے۔ ہماری سڑکوں پہ نکلیں تو طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی قسم کے سواری پہ سفر کررہے ہوتے ہیں۔ واپسی پہ ذہن صرف اس شور بدتمیزی سے بے حال ہوا ہوتا ہے۔ ہماری سڑکوں پہ ہارن کا بے دریغ استعمال، بڑے اور بے ہنگم ہارن کا شور، کہیں پہ گاڑیوں، رکشوں میں بےحیائی اور بے غیرتی کے بے نظیر میوزک بآواز بلند کہیں پہ گھس کر آگے بڑھنے کی جستجو وغیرہ وغیرہ ہمارے ماحول کو صوتی شور سے پر تعفن بنانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ اور ایسے ماحول میں اپنی ذہنی استعدادکو برقرار رکھنا ازخود اک جہاد ہے۔ کیا ایسے معاشرے والے مہذب یافتہ کہلائے جا سکتے ہیں؟ کیا ایسی قیامت خیز صوتی شور اور بدتمیزی دنیا کے کہیں اور ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک میں پائی جاتی ہے؟ اس حالت میں ہم مہذب قوم کیوں کر کہلائے جا سکتے ہیں؟
3) بے جا اور بے دریغ تجاوزات، انتہائی افسوس اور حیرانی کی بات ہے کہ بد تہذیبی کی کوئی ایسی علامت و خرابی جو ہم میں بحیثیت قوم پائی نہیں جاتی۔ ہمارے ہاں یہ بھی اک المیہ ہے کہ ہر دوسرا شخص اپنے حصے کے تجاوزات میں ملوث ہے۔ گھر ہوں دیکھ لیں سامنے کے راستے میں تجاوز کر چکے ہیں، دوکان ہے تو بھی تجاوز کر چکے ہوتے ہیں۔ اور اگر کہیں پہ تجاوز نہیں کیے ہوتے تووہ یقینا جگہ نہیں ملی ہوتی تو پھر اسکے بدلے گھر دوکان یا دفتر کے سامنے کچھ سامان باہر ضرور رکھا ہوتا ہے اور یوں تجاوزات کی مد میں برابر حصہ دار بن جاتے ہوتے ہیں۔ جس سے ٹریفک کی روانی میں مسلہ، پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مسلہ پیش آتا ہے۔ جبکہ دعوے ہمارے پکے اور سچے مسلمان کے ہوتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہم یہ سیکھنا بھول گئے ہیں کہ اسلام کا تو نام ہی حدود میں رہنا ہے۔ اسلام تو ہم پر حدود نافذ کرتا ہے ہر چیز کے حوالے سے چاہے وہ ٹریفک کے ہوں چوری کی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اور ہم میں ہر دوسرا شخص حدود سے باہر نکلنے میں بھرپور ملوث ہے۔ جبکہ شریعتِ محمدی ﷺ کا اصول تو یہ ہے کہ اگر مسجد کی تعمیر سے راستہ تنگ ہوتا ہو تو مسجد کو تنگ کرد و مگر راستے کوکھلا رکھو تجاوز نہ کرو۔ لیکن یہاں تو ہمارے ہاں اس اسلام کی رمق بھی نظر نہیں آتی۔ تجاوزات سے روکنے کے لیے دوسرے کا خون تک کر دیتے ہیں مگر تجاوز کو، حدود پھلانگنے کو اپنا موروثی حق مانتے ہیں۔ کیا اس رویے کے ہوتے ہوئے ہم اقوام عالم میں مہذب یافتہ بن سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔