Aaj Ke Masharti Masail Aur Unka Hal (1)
آج کے معاشرتی مسائل اور اسکا حل (1)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے۔" ھم لوگ نصیب سے زیادہ اور وقت سے پہلے چاہتے ہیں۔" زیادہ کی طلب اور جلد بازی کے اس معمے نے معاشرتی مسائل کا اک پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ جو کہ ختم یا حل ہونے کی بجائے بڑھتےہی جا رہے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے خاتمے کے لیے سب سے اہم چیز صبر ہے۔ جوکہ ہم میں اجتماعی طور پر ناپید ہو چکا ہے۔ ھم کسی بھی مسئلے کا حل الہ دین کا چراغ رگڑ کر جن کے حاضر ہوتے ہی چٹکی بھر میں حل ہونا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن ہے۔ اس کی بڑی اک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جذبات اور سوچ و فکر کا بھی انتہائی خوفناک حد تک فقدان پایا جاتا ہے۔ ہم بغیر سوچے سمجھے اور جذباتی طور پر اک بات کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ جبکہ اس کا جسمانی / عقلی و شعوری حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی مگر ہم نے اسکو پہاڑ جتنا بڑا کیا ہوتا ہے۔ اب اس کے پیچھے بھی بڑا دقیق نقطہ یا اک سوچ پائی جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہمارے ہاں انتہائی چالاک اور خفیہ منافقت کا وجود پایا جاتا ہے جو کافی صحتمند اور توانا ہے۔ ہم جذباتی میلان پر تو اکٹھا ہوتے ہیں، آواز بھی اجتماعی طور پر اٹھا رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل درپردہ سوچ سب کی انفرادی ہوتی ہے۔ ہر کسی کی نظر انفرادی مفادات پہ ٹکی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اجتماعیت کا تصور اپنے اصل روح کے ساتھ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ آپ انسانی تاریخ کی ابتدا باباآدم علیہ السلام سے اٹھا کر دیکھ لیں، آج تک کسی قوم یا ملک کے حالات نہیں بدلے، ان کے مسائل حل کے راستے پہ چلے نہیں جب تک ان میں اک بھی بندہ انفرادیت کے چھترے سے نکلا نہ ہو۔ بلکہ صرف یہ نہیں اب ذرا اس کا دوسرا زاویہ دیکھتے ہیں۔
آقا علیہ الصلوات والسلام نے آج تک جتنی بھی دعائیں تعلیم فرمائی ہیں ان میں اک بھی دعا میں واحد صیغہ موجود نہیں۔ ھر اک دعا میں جمع صیغوں کو اپنایا ہے۔ سب سے بڑھ کر پہلے سورہ فاتحہ کو دیکھ لیں، ہم روزانہ پانچ نمازوں میں کوئی ۳۲ بار پڑھتے ہیں لیکن اس سورہ مبارکہ میں اک بھی جملہ یا صیغہ واحد کا نہیں، پوری کی پوری سورہ میں جمع صیغے ہیں۔ جیسے کہ " اے پرودگار ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔" لیکن انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنے معاشرے اپنے گھروں میں اسکے برعکس انفرادیت کے ہی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ اپنے آبائی زبان پشتو میں تو اک مشہور مقالہ ہے " اول زان دے بیا جہان دے " ترجمہ یعنی " پہلے اپنا آپ ہے پھر سارا جہاں " جو کہ سراسر اجتماعیت کی نفی کر رہا ہے۔ جب کہ قرآن بڑے خوبصورت انداز میں درس دے رہا ہے۔" بہترین تو وہ ہے جو اپنے سے زیادہ اپنے دوسرے بھائی کے حق کو مقدم سمجھے۔" اک بات پکی ہے کہ جب تک ہم انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت پہ نہیں آئینگے تب تک ہمارے معاشرتی مسائل ہماری مستقل طور پہ اضطرابئ و بے چینی بڑھاتی رہے گی۔ اور جس معاشرے میں اضطرابی و بےچینی پائی جاتی ہے وہ معاشرے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ مایوس معاشرےکبھی ترقی کر سکتے اور نہ بااخلاق کردار تشکیل دےسکتے ہیں۔
ایک آدمی دودھ بیچتا ہے اوروہ اسمیں پانی ملاتا ہے۔ اب اس پانی کے ملاپ سے فائدہ معاشی صورت میں ہوگا مگر اس انفرادی شخص کو جبکہ باقی سارے معاشرے تو اجتماعی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ تو اسطرح کے معاشرے جو صرف انفرادی سوچ کا بوجھ برداشت کر رہی ہے اس معاشرے سے بے چینی و مایوسی نکالنا ممکن نہیں جب تک اس موجود انفرادی سوچ کا قلع قمع نہ کیا جائے۔ اور انفرادی سوچ کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے ہمیں اک دوسرے سے جوڑنا پڑے گا، سچے دل سے خلوص سے اک دوسرے کے ساتھ ربط کو نہ صرف پیدا کرنا بلکہ قائم رکھنا بھی ہوگا۔ اک دوسرے کے غم، درد، دکھ سکھ میں اور خلوص نیت اور رضائے الہی کے لیے شریک ہونا پڑے گا تب انفرادیت نکلنے کے لیے اپنا راستہ لے گا۔ اور اس کے لیے قدرت نے کا کمال احسان دیکھیں کس انداز سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار فرماتا ہے۔ اللہ کریم نے اپنے بندوں کو اس گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے بچنے کے لیے پانچ بار نماز کا درس دیا اور فرض کر دیا، باجماعت پڑھنے کا اصول نہ صرف دیا بلکہ اپنے محبوب کے واسطے سے عملی طور پر دکھایا بھی، تاکہ ہم دن میں پانچ بار صرف خالق کے سامنےحاضری کے لیے نہ جائیں جب آپ بندگی کے احکام نماز کی صورت میں ادا کرلیں تو پھر اک دوسرے سے گھل مل کر اک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی حاصل کریں۔ تا کہ آپکے آپس میں ربط بنا رہے، تعلق جڑا رہے اور یہی آپ کے مابین سے انفرادیت کو دور کرے گا اور یوں آپ اضطربیت کا شکار بھی نہیں ہونگے۔
مگر آج دیکھ لیں ہم میں کتنے اول با جماعت نماز میں شریک ہوتے ہیں؟ جو شریک ہوتے ہیں ان میں کتنے اک دوسرے باہم کلام و گفتگو کرتے ہیں؟ شائد ہی کوئی اک آدھ جگہ پہ کوئی کوئی ایسا کرتے ہونگے۔ تو پھر مابین ربط، اور باہمی تعلق کیسے اور کیونکر پیدا ہوگا؟ اجتماعیت کیسے اور کہاں سے جنم لے کر پروان چڑھے گی۔ اک لمحے کے لیے ذرا غور تو فرمائیں، معاشرتی اور اجتماعی مسائل ہمیشہ تقسیم کے باعث پیدا ہوتے ہیں، خواہ تقسیم کسی بھی لحاظ سے ہو۔ اسلیے اللہ نے اپنے دین کے ذریعے سب سے بڑا ظلم اور ناقابل معافی گناہ شرک کو قرار دیا کیونکہ شرک توحید کو، اللہ کی ذات اور الہیت کو تقسیم کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں بھی اللہ نے تفرقہ بازی کا ذکر فرما کر حرام قرار کر دیا۔ کیونکہ تفرقہ بازی انفرادیت کی سوچ کو جنم دیتا ہے اور انفرادیت معاشرتی مسائل کی جڑ ہے۔ یاد رکھیں اگر کوئی شخص ذاتی طور پر انتہائی نیک ہو، عبادت گزار بھی ہو، دوسروں کے ساتھ رحم دل بھی ہوں، ذاتی زندگی میں اسلام کے تمام اصول و قوانین کو باقاعدہ طور پر پورا کر رہا ہو مگر وہ معاشرتی طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہا اور معاشرے سے کٹ کے رہ رہا ہو وہ آقا علیہ الصلوات والسلام کے طریقے سے ہٹا ہوا ہے۔ کیونکہ معاشرت کے ہر مثبت پہلو میں باقاعدہ طور پر بھر پور طریقے سے شامل ہونا حصہ لینا شریک ہونا آقا علیہ الصلوات والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔
ذرا غور فرمائیے محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام نے کتنے احسن طریقے سے معاشرت کی تعلیم فرمائی ہے۔ آپ علیہالصلوات والسلام فجر کے نماز کے بعدمسجد میں بیٹھ کر صحابہ کرام علیھم رضوان اللہ اجمعین سے گفتگو فرماتے تھے۔ انسے درپیش مسائل سماعت فرماتے تھے اس پہ بات چیت فرماتے تھے، مناسب اور موضوع حل اور مفید مشوروں سےمستفید فرماتے تھے۔ لیکن آج ہمارے ہاں دیکھ لیں اول تو ہمارے ہاں جماعت کا شعور ہے ہی نہیں، چند گنےچنے وہ بزرگ جن کو سارا دن کوئی اور کام نہیں ہوتا اور زندگی کے آخری حصہ میں فقط نماز و عبادات کے لیے وقف ہو چکا ہوتا ہے وہ جماعت میں شامل ہوتے ہیں باقیوں کو مرے سمیت شاذ و نادر ہی توفیق نصیب ہوتی ہے، اور جو شامل ہوتے ہیں جماعت میں ان میں بھی آدھے اے زیادو اک دوسرے سے کلام نہیں کرتے۔ اور جن کی آپس میں گفتگو کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے تو اوہ بھی بدقسمتی سے اکثریت سے غیبت گوئی، لایعنی اور لغو سے بھر پور ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بس اب اک ہی رواج باقی رہ گیا ہے کہ بڑے بڑے مسائل میں تو ہم اک دوسرےسے باہم مل بیٹھتے ہیں۔ مگر چھوٹے چھوٹے مسائل میں ہم اک دوسرے کو نظر اندازکرتے ہیں۔ جبکہ یہ چھوٹےچھوٹے مسائل ہی دراصل بڑے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ جب تک ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں باہم مل بیٹھنے کو اپنائیں گے نہیں تب تک ہم معاشرتی مسائل کے چنگل سے نہیں نکل سکتے۔