Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salma Latif
  4. Khush Rehna Kitna Mushkil Hai?

Khush Rehna Kitna Mushkil Hai?

خوش رہنا کتنا مشکل ہے؟

اگر والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیا چاہتے ہیں تو اکثریت کا جواب کیا ہوگا؟ کامیابی؟ بہترین گریڈز؟ خوبصورتی؟ صحت مندی؟ معاشی استحکام؟ تحقیق کے مطابق والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو خوش دیکھناچاہتی ہے، صرف خوش۔ عجیب بات یہ ہے کہ اکثر بچوں کو کامیاب ہونا، بہتر سے بہتر گریڈز لانا، معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا، معاشرتی استحکام حا صل کرنا سکھایا جاتا ہے لیکن "خوش کیسے رہنا ہے" نہیں سکھایا جاتا۔ حالانکہ جمع تفریق، حاصل حصّول کا مقصد خوشی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیا ہم خوش رہنا سیکھ سکتے ہیں؟ خوشی ہے کیا؟ کتنی ضروری ہے؟ بچے خوش نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا خوش رہنے کا کوئی فارمولا ہے جو ہم بچوں کو سکھا سکیں؟ جوابات دلچسپ ہیں۔ اکثر ناخوشی کو ماحول اور حالات کے دباؤ سے جوڑا جاتا ہے جبکہ سائنس اور تحقیق کہتی ہے کہ حالات کا خوش رہنے سے تعلق صرف دس فیصد ہوتا ہے۔ کیا نوے فیصد عوامل نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ خوش رہنا ایک عادت ہے جو انسانی دماغ دوسری عادتوں کی طرح سیکھتا ہے۔ خوشی کی تشریح مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے لیکن سائنس کی اس مکمل شاخ کے مطابق، جسے پازیٹو سائیکا لوجی کہا جاتا ہے، خوشی کا مطلب مثبت جذبات کا ہونا اور منفی جذبات کا نہ ہونا ہے۔ ان مثبت جذبات کے حصول کے لیے جو ٹولز انسان استعمال کرتے ہیں کامیابی، خوبصورتی، صحت، معاش ان میں سے چند ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم ٹولز کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ان کے استعمال اور اثرات کو ہینڈل کرنے پر توجہ نہیں دے پاتے۔ سادہ الفاظ میں والدین اپنے بچوں کے لیے دولت کماتے ہیں تاکہ آسائشات دے سکیں جو ہماری نظر میں خوشی ہیں، کیا بچہ بھی یہی سوچتا ہے؟ پازیٹو سائیکالوجی کے مطابق رشتے دولت سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، بچوں کے لیے مہنگی آئسکریم سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کے والدین اور بہن بھائی مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ ہیں۔

خوش رہنا ضروری ہے کیونکہ خوش رہنے والے لوگ بیماریوں کے خلاف زیادہ مدافعت رکھتے ہیں، بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کارآمد شہری ہوتے ہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ یہ سب ہوتا کیسے ہے؟ پازیٹو سائیکالوجی کے مطابق یہ عادات کا مجموعہ ہے جو ہم سیکھ اور سکھا سکتے ہیں۔ خوش رہیے اور اپنے بچوں کو خوش رہنا سکھائیے۔ جی ہاں خوش باش بچوں کے لیے اولین قدم خوش باش والدین ہیں خاص طور پر والدہ۔ اگر والدین خوش نہیں دکھائی نہیں دیتے تو بچے بھی خوش رہنا نہیں سیکھ سکتے۔ والدین کے اکثر منفی رویے غیر محسوس طریقے سے بچوں میں سرایت کرتے ہیں۔ شخصیت کی بنیادی اینٹ ٹیڑھی مت رکھیے۔ خوش رہیے تاکہ بچے خوش رہنا سیکھ سکیں۔ ہنسنا، قہقہے لگانا، جو بھی میسر ہے اس پر مثبت رویہ اختیار کرنا اور شکر ادا کرنا آپکے بچوں کو بھی ہنسنا، خوش ہونا، اور شکر ادا کرنا سکھائے گا۔ سائنس اسکی مکمل تصدیق کرتی ہے۔

اپنے بچوں کو رشتے اور تعلق بنانا، نبھانا سکھائیے۔ استقامت شرط ہے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کی ترغیب دیں یہ عمل نہ صرف انہیں اچھا انسان بنائے گا بلکہ خوش رہنا بھی سکھائے گا۔ بچوں سے پرفیکٹ ہونے کی توقع مت کریں انکی کوشش کو بڑھاوا دیں، ناکام ہوجائیں تب بھی کوشش کو سراھیں اور ہمت بندھائیں۔ بچوں پر کبھی بھی نمبر ون کا ٹیگ نہ لگائیں ورنہ وہ ہمیشہ اس ٹیگ کو بچانے کی کوشش میں لگا رہے گا۔ بچہ چاہے جو بھی کرے آپ کا کام اُس کوشش کو با مقصد بنانا ہے۔ اچھی کوشش کی تعریف کریں ناکامی پر ہمت بندھائیں، کامیابی پر فخر کرتے رہنے سے بچے میں مختلف قسم کے رحجانات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ٹاسک دیتے رہیں ناکامی کی صورت میں تنقید سے پرہیز کریں، بچوں میں مثبت رویے کو فروغ دیں۔ مل جانے والی نعمتوں پر شکر کرنا سکھائیں ظاہر ہے جب آپ خود یہ کریں گے تو بچے بھی آپ کی تقلید کرتے رہیں گے۔ شکر خو شی کو بڑھا دینے والے مادوں کے بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم ہر وقت نہ ملنے والی چیزوں اور دکھی باتوں کو یاد کرتے رہیں گے شکوہ شکایت کرتے رہیں گے تو یقیناً منفی رویے اور جذبات ہمیں نا خوش کر دیں گے۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں ضرور لیکن انہیں گلے کا ہار بنا کر روتے نہ رہیں کیونکہ آپ کے بچے ان سے اثر پذیر ہو رہے ہیں اور یہی رویہ سیکھ رہے ہیں۔ بچوں کی خوشی کا محور انکے بڑوں کا سلوک اور جذبات ہیں اور وہی سیکھیں گے جو انہیں نظر آئے گا۔ گھر کے کام کرتے وقت بچوں کو چھوٹے چھوٹے ٹاسک دیں مثلاً کتابوں کی ترتیب درست کرتے ہوئے بچوں کو شیلف پر رکھنے کا موقع دیں۔ پھل اور سبزیوں کو دھونے کے بعد مقررہ جگہ پر رکھنے کے لیے بچوں کی مدد لیں۔ ٹاسک مکمل ہونے پر بچے کا شکریہ ادا کریں۔ یہ عمل بچے میں احساس پیدا کرے گا کہ وہ بھی کسی کے کام آسکتا ہے۔ بچوں کو جذبات کے نام بتائیں اور اظہار کی آزادی دیں۔ بچوں کو لالچ کبھی مت دیں کہ یہ کرو تو یہ ملے گا۔ یہ انہیں جلد باز، خود غرض اور جھگڑالو بنائے گا۔ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنائیں تاکہ وہ اسی سانچے میں ڈھل سکیں اور ظاہر ہے اسکی ابتداء خود آپ ہی سے ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ کھیلیں، ساتھ کھانا کھائیں، قہقہے لگائیں اور چھوٹے چھوٹے کام ساتھ مل کر کریں۔ خوش رہیں یہ سب آپ کے بچے سیکھ رہے ہیں اور دنیا میں اس سے بہتر کوئی سرمایہ کاری نہیں۔

ہوسکتا ہے شروعات میں یہ کام بیزار کن لگے کیونکہ ہم سب بڑے عموماً ناخوش ہوتے ہیں یا کسی نا کسی دباؤ میں زندگی گذار رہے ہوتے ہیں۔ خود کو دباؤ کے ساتھ جینا سکھائیے اور اپنے بچوں کو وہ بچپن میں ہی سکھا دیجئیے جسکی کمی آپ کو ابھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ سب یقیناً مشکل ہے لیکن اس محنت کا نتیجہ اتنا ہی دل خوش کن ہے۔

Check Also

Thanday Mard Ke Bistar Par Tarapti Garam Aurat

By Mohsin Khalid Mohsin