1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Shad/
  4. Tarbiyat Aur Ikhlaq

Tarbiyat Aur Ikhlaq

تربیت اور اخلاق

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ آج کل بچے بدتمیز ہوتے جارہے ہیں، بچوں میں بڑوں کی عزت اور انکی حیا کی سوچ ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیت کرنے سے پہلے ہمیں اپنی تربیت کرنا ہے، بچے نصیحت سے اور سختی سے وہ کچھ نہیں سیکھتے جو اپنے سامنے موجود عملی نمونہ کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔

خالق کائنات نے مخلوقات پیدا کیں، سب کو اپنے اپنے کام پر مقرر کر دیا اخلاقی اقدار کے مختلف پہلو انکے روز مرہ امور اور انکی صلاحیتوں میں انسان کے سمجھنے کیلئے رکھ دئیے۔

اخلاقی اقدار کیا ہیں؟ یہ معاشرہ میں امن اور سکون کیلئے ناگزیر روئیے ہیں جیسے سچائی، محبت، انصاف، رواداری، خیر خواہی، صبر، برداشت، عدم تشدد، عالمی اخوت، مثبت ردعمل وغیرہ، لیکن یہی روئیے ہیں، جنہیں خالق کائنات ہماری زندگیوں میں نافذ دیکھنا چاہتا ہے۔

ہر دور میں ان رویوں کی تبلیغ و ترویج کیلئے انبیاء اور رسول بھیجے۔ ان سب نے یہی اقدار سیکھائیں یعنی اعلی شخصیت سازی کیلئے اخلاق سیکھائے، ہمارے نبی آخرالزماں محمد مصطفے ﷺ نے تو یہ فرمایا یعنی کہ میں تکمیل اخلاق کیلئے بھیجا گیا ہوں۔

خواتین و حضرات! اخلاق یہ ہیں کہ ہمارا ردعمل مثبت ہو جائے ہم منفی عمل کے جواب میں بھی اپنا ظرف قائم رکھیں، گائے بھینس بکری کو ہم معمولی گھاس کھلائیں چارہ کھلائیں یا قیمتی اناج سے بنی خوراک یہ جانور ہر حالت میں ہمیں دودھ ہی مہیا کرتے ہیں۔

ہم پہاڑوں سے بہنے والے پانی کی طرح آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر لیں کسی پتھر کو ہٹانے پر توانائی صرف نہ کریں بغیر جھگڑے بغیر دوسرے کو نقصان پہنچائے اس مقام سے گزر جائیں تو کیا ہی شاندار اخلاقی مثال بن جائیں۔

ہمارے اندر درختوں کی ٹہنیوں جیسی لچک ہو تو ہم سختیوں اور مصائب سے ٹوٹیں گی نہیں نقصان سے بچ جائیں گے جیسے تیز ہوا اور آندھی میں درختوں کی شاخیں جھک جاتیں ہیں ہواؤں کو گزرنے دیتی ہیں اور اپنا وجود قائم رکھتی ہیں۔

ستاروں سیاروں کی طرح ہم اپنے اپنے دائرے میں رہیں تو کسی سے ٹکراو نہیں ہوگا خوش اسلوبی سے سب معاملات حل ہوتے جائیں گے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ انسان بھی بغیر غرض کے دوسروں کو آسانیاں دینے والا بن جائے تو اسے بھی آسانیاں ہی ملیں گی یہ ایسا ہی ہے جس طرح درخت ہر ایک کو مفت آکسجن مہیا کرتے ہیں تو بدلے میں انہیں انکی خوراک کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی ڈھیروں ڈھیر ملتی ہے۔

سورج اور چاند کسی خاص طبقہ یا گروہ کو فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ انکا فیض سب کیلئے یکساں ہوتا ہے اگر انسان بھی خود سے انسانیت کو فائدہ دینے کی ٹھان لے تو مقصد حیات حاصل ہو جاتا ہے۔

خواتین و حضرات! آپ غور فرمائیں چرند پرند درخت دریا چاند سورج سب نفع و فائدہ دیتے ہیں، رکاوٹ سے لڑتے نہیں راستہ ڈھونڈتے ہیں، اپنے اپنے امور انجام دے رہے ہیں۔ اس سے ہٹ نہیں سکتے گویا وہ سب مجبورمحض ہیں، لیکن حضرت انسان کو یہ سب اخلاقیات اختیار کرنے یا نہ کرنے کی آزادی ہے یہی آزادی امتحان ہے اسی کیلئے انسان دنیا میں معاشرہ میں زندگی گذارتا ہے اور اسی کا اجر اور اسی کی سزا ملے گی۔

خواتین و حضرات! بچوں کی تربیت کیلئے ہمیں اپنی تربیت کرنا ہے اگر ہم اپنی شخصیت میں کم از کم بنیادی تین وصف پیدا کر لیں تو ہمارے بچے یقینا ہماری زندگی میں شامل ان اعلی اخلاقی قدروں کو بغیر کہے اختیار کر لیں گے انکی شخصیت میں یہ اعلی اخلاقی روئیے شامل ہو کر انہیں ہر دل عزیز بنا دیں گے۔

اوّل یہ کہ ہماری زندگی میں سچ آ جائے جھوٹ کسی صورت ہماری زندگی ہماری شخصیت میں شامل نہ ہو۔ بچے جو ہمارے سب سے قریب ہوتے اور ہمیں بغور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں ہمیشہ سچ بولتے سچ دیکھاتے سچ کو پسند کرتے سچ سے محبت کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی سچے ہو جائیں گے یہی وہ صفت ہے جو ہم دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم دھوکہ نہ کھائیں فراڈ سے بچ سکیں تو پہلے ہمیں خود سچ کو اختیار کرنا پڑے گا۔

دوم: ہمارے اندر شکریہ ایک روئیے اور عادت کی صورت میں موجود ہونا چاہیئے۔ اللہ کا وعدہ ہے یعنی اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دونگا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے یعنی جو بندوں کا شکرگذار نہیں وہ خالق کا بھی شکرگذار نہیں۔ گویا ہماری زندگی میں آسانی دینے والا ہماری مدد کرنے والا ہماری معاونت کرنے والا کوئی بھی ہو اسکا شکریہ ادا کیا جائے۔ ہمارا حق بھی ہمیں ملے تو ادا کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے، گھر دفتر فیکٹری کارخانہ میں ملازمین اجرت لے کر کام کریں پھر بھی شکریہ ادا کیا جائے، بیوی کا خاوند کا بچوں کا بھی شکریہ ادا کیا جائے خواہ وہ پانی کا گلاس پلائیں آپکی آواز پر بات سننے آئیں یا آپکی ضرورت پوری کرنے کیلئے کوئی کام کریں۔ شکریہ ہماری عادت بن جائے تو بچوں کی زندگی میں خود بخود آ جائے گا اور انہیں معاشرہ میں مقبول کر دے گا آسانیاں مہیا کروائے گا۔

سوم: معافی مانگنے کو اختیار کر لیا جائے، چھوٹی اور معمولی لغزش ہو یا کوئی بڑی غلطی، اپنے عہدے رتبے رشتے کو انا کے خول میں نہ جانے دیں فورا معافی مانگیں غلطی تسلیم کریں شرمساری کا اظہار کریں اور اسے دوبارہ نہ دھرانے کا ارادہ کریں، ضمیر بھی مطمعن ہوگا اور وقار بھی بڑھے گا۔ اپنی کوتاہی اور غلطی تسلیم کرتے ہوئے خلوص سے فورا معافی مانگنے کی عادت انسان کو اپنے رب سے سچے دل کیساتھ توبہ کی توفیق بھی عنایت کر دیتی ہے۔

اخلاق زندگی کو حسین بناتے ہیں تو آخرت میں جنت تک لے جاتے ہیں۔

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed