Sakoon, Magar Kaise
سکون، مگر کیسے
انسان معاشرہ میں رہتا ہے دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے اسے اکیلے تنہا معاشرہ سے الگ تھلگ زندگی گذارنے کیلئے پیدا نہیں کیا گیا۔ انسان کی اچھائیاں اور برائیاں دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسان خود بھی دوسروں سے متاثر ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے جو مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں انسان منفرد ہے اور اعلی ہے اسے کثیر جہتی مقاصد کیلئے خاص صلاحیتوں کیساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
انسان کو عظیم کہا گیا کیونکہ یہ دوسروں کی مدد کرتا ہے دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے دوسروں کی تکالیف اور مشکلات کم کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ سوچ اور طرزعمل سب اپنا لیں تو سب کیلئے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں سب کی مشکلات کم ہوتی ہیں اور زندگی پرسکون بن جاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جس جنت کی ہمیں خبر دی گئی ہے اس جنت کی سب سے خاص بات وہاں پر میسر سکون ہےاور اگر سکون ہمیں اس زندگی میں بھی مل جائے تویہ زندگی بھی جنت جیسی زندگی بن جائے۔ لیکن یہ سکون انسان نہ اکیلا پیدا کر سکتا ہے نہ کسی سے اپنے لئے چھین کر حاصل کر سکتا ہے نہ کہیں سے خرید سکتا ہے، سکون معاشرہ میں انسانوں کی باہمی کوشش سے ہی پیدا ہو سکتا ہے۔
سکون کیلئے بنیادی شرط اپنے وسائل پر خوش رہنا اور حاصل ہونے والی آسانیوں سہولتوں پر شکرگذار رہنا ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ بس یہی نقطہ ہے جو انسان کے سکون کی بنیاد ہے، گلے شکوے شکائتیں کبھی بھی مسائل کو مکمل حل نہیں کرتیں۔ جو اچھا ہے اس پر شکر اور جو ٹھیک نہیں اس پر صبر کیساتھ اپنی بساط کے مطابق بہتری کی کوشش سکون عنایت کرتی ہے۔ واصف صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ تمہارا آدھا نصیب تمہارے ہاتھ میں لکھا ہے اور باقی آدھا اس کے ہاتھ میں لکھا ہے جس سے تم ہاتھ ملاتے ہو۔ یعنی جس سے ملتے ہو جسے دوست بناتے ہو جس کیساتھ تعلق بناتے ہو۔
اپنے سے جڑے لوگوں کی قدر کرنا انکو اپنے لئے رحمت اور آسانی کا باعث سمجھنا ضروری ہے انسان کو بہت سا رزق اپنے سے جڑے لوگوں کی وجہ سے ملتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک صحابی آئے اور اپنی تنگدستی کا زکر کیا، آپ نے فرمایا بکریاں پال لو، مقصد یہی تھا کہ جانور کا رزق عطا ہوگا تو یقینا انسان کا رزق بھی بڑھ جائے گا۔ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ آئے اور خوشحالی نہ ہونے کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا شادی کر لو۔ مقصد پھر یہی تھا کہ اس مرد کی ذمہ داری میں دوسرا انسان آئے گا تو اس کا رزق بھی عطا ہوگا تو یقینا رزق میں اضافہ ہوگا۔
سکون حاصل کرنے کیلئے ایک اور شرط اپنی تکالیف اور مشکلات پر صبر کرنا ہے، خالق کائنات اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتا ہے، ستر ماوؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا خالق کس طرح تکلیف دے سکتا ہے۔ تکالیف آزمائش ہوتی ہیں جو ہمارے تزکیہ کیلئے ہمارے درجات کی بلندی کیلئے پیش آتی ہیں۔ خالق کائنات اس صبر کا اجر دنیا میں بھی دیتے ہیں اور آخرت میں بھی۔ انسان جب صبر کرتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے تو اسکی زندگی پر لازم نتیجہ سکون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سکون رب کی خاص عنایت ہے جو اسکے مقبول بندوں کو ملتی ہے۔
صبر اور شکر رضائے ربی کیلئے بنیادی عناصر ہیں لیکن یہ انسان کو کوشش اور ترقی سے نہیں روکتے، انسان مزید بہتری اور کامیابی کیلئے سوچتا ہے محنت کرتا ہے تو حاصل شدہ مقام صبر و شکر سے محروم نہیں ہوتا، بلکہ ایک نئی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے جسے سکون کہتے ہیں۔