Hamari Amma
ہماری اماں
ہماری اماں ایک غریب گھر میں بیاہ کر آئیں، یہ وہ گھر تھا جہاں بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا میڑک کے بعد الیکٹرک کا ایک کورس کر چکا تھا چھوٹے موٹے کام مل جاتے تھے مستقل ذریعہ آمدن نہ تھا، ساس نے بڑی مشقت سے چوتھی جماعت میں پڑھتے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو خاوند کی وفات کے بعد پالا تھا۔
کچا گھر تھا لیکن جگہ اپنی تھی، صحن میں لگی لسوڑی اور ٹاہلی اس گھر کی پہچان تھی جہاں ساس کی سہیلیاں اپنے اپنے کام اٹھا کر لے آتیں اور پھر سارے ہی کام مل جل کر کر لئے جاتے، اماں سگھڑ تھیں اپنے میکے گھر میں بھینس کو سنبھالنے دودھ نکالنے کی سب ذمہ داری اماں ادا کر چکی تھیں، سلائی کڑھائی کا شوق تھا بہت کچھ سیکھ کر آئیں تھیں اور ان خواتین سے بھی بہت کچھ سیکھ گئیں اماں لوگوں کے کپڑے سیتیں سویٹر بنتیں، رضائیاں بناتیں۔
اماں کو ہم انجینئیر کہا کرتے تھے کیونکہ اماں کا دماغ بہت تیز تھا سلائی مشین کی خرابی دور کرنا ہو یا کسی دروازے کھڑکی یا چھت کے خراب ہونے کا معاملہ ہو اماں ایسا جگاڑ سوچ لیتی تھیں کہ کمال ہو جاتا انکی یہ صلاحیت انہیں ہماری دادی کی سہیلیوں اور محلے کی عورتوں میں مقبول بنا گئی، اس وقت سے ہی کوئی مسئلہ ہوتا تو مشورہ کیلئے اماں کے پاس وفد آیا ہوتا، حتٰی کہ محلے میں کچے گھر آہستہ آہستہ پکے ہونے لگے تو اسکی تعمیر میں مشورہ کیلئے بھی اماں کو بلایا جاتا باورچی خانہ کہاں بنائیں اور سیڑھیاں کہاں سے چڑھائیں۔
ایک بار ہماری دادی بے بے جی کی ایک سہیلی نے کسی فوتیدگی پر اماں کو کسی کا پہنا ہوا سویٹر دیکھایا کہ رانی ایہہ مینوں بڑا سوہنا لگدا اے کروشئیے نال بنیا اے کہندی اے مینوں پنڈی توں چاچی نے کھلیا اے، اماں نے سویٹر دیکھا وہاں سے سیدھا اون لینے گئیں اور رات بھر جاگ کر سویٹر بن دیا صبح اسی رنگ کا اسی ڈیزائن کا سویٹر دیکھ کر سب حیران پریشان تھیں اور ہماری دادی اپنی بہو کی ہنرمندی پر خوشی سے مسکراتی لال سرخ ہوئی بیٹھی تھیں۔
میں پیدا ہوا تو ابا کی واپڈا میں نوکری ہوگئی، یہ جونئیر کلرک کی نوکری تھی جسے بل ڈسٹری بیوٹر کہا جاتا ہے، ابا صبح ہی صبح اپنے حصے کے بل تقسیم کرتے دفتر جاتے حاضری لگاتے اور اگلے دن کے بل لے کر گھر آ جاتے۔ دن کا باقی وقت ابا جی کوئی نہ کوئی کاروبار کرتے رہے، پھر ایک چھوٹی سی ساجھے داری پیتل کے برتن بنانے کی شروع کی دونوں ساجھےدار نیک نیت تھے اللہ نے بہت برکت دی یہ کام کوئی پانچ چھ سال چلا اور خوشحالی آ گئی کچا مکان پکا بن گیا جس کا نقشہ ابا اور اماں کا ہی بنایا ہوا تھا۔ پھر دوسرے ساجھے دار کے بھائیوں نے اسے سعودیہ بلا لیا جہاں انکا بڑا کاروبار تھا، یہاں اچانک سرمایہ نکل جانے سے یہ کام نہ سنبھلا ویسے بھی اسی دوران اسٹین لیس اسٹیل کے برتن رواج پا گئے تھے۔
اس کے بعد کے دس پندرہ سال پھر سے جدوجہد کے سال تھے اماں نے گھر بیٹھ کر ہر طرح سے محنت کی آمدن کو گزر و اوقات کے قابل بنانے میں اپنا بھرپور ساتھ دیا، اماں کھانے پکانے کی ذمہ داری بطور مجبوری پورا کرتی تھیں اس کام سے انہیں کوئی خاص محبت نہ تھی اور اس میں بہت توجہ نہ دینے کی اہم وجہ ابا جی تھے جنہیں سوائے روٹی پکانے کے نہ صرف کھانا پکانے کا شوق تھا بلکہ وہ ہر قسم کے اور مختلف علاقوں کے کھانے ہر موسم کی سوغاتیں، ہر طرح کی چٹنی اچار اور شربت سب کچھ بڑی مہارت سے بنا لیتے تھے۔ یہ ایک سہولت اماں کو حاصل تھی تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ دیگر ہنر مندیوں میں مرکوز رکھی۔
ایک دفعہ ہمارے ہمسائیوں کے ہاں نئے طرز کی نائیلون کی چارپائی بننے کیلئے ایک بابا جی آئے تو اماں وہاں جا کر کھڑی ہوگئیں بابا جی نے اماں کا شوق دیکھا تو اس کا بنیادی نقطہ سمجھایا اور کہا لے پتر ابھی تم چارپائی ُبن کے دیکھو اماں آگے بڑھیں اور ساری چارپائی بُن دی۔
اماں کی کئی شاگرد تھیں بوڑھی عورتیں بھی اور جوان لڑکیاں بھی، اماں بہترین استاد تھیں، نرم دل اتنی تھیں کہ کوئی خالی ہاتھ نہ جاتا اور سماجی بہبود میں یوں مگن رہتیں کہ کسی کی بہو بیٹی کیساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا تو اماں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ساتھ ہو لیتیں کئی بار ہمیں صبح نماز فجر کے وقت پتہ چلتا اماں ابھی واپس آئی ہیں اور فلاں کی بہو اور نومولود پوتے کو ہسپتال سے ساتھ لائیں ہیں۔
اماں نے اس سارے وقت میں پیسے پیسے کیلئے محنت کی بچوں کو گھر کو سنبھالا اور ضعیف ساس کی خدمت دل و جان اور محبت سے کی۔ ابا نے نوکری کیساتھ کئی چھوٹے موٹے کاروبار کئے آمدن بڑھائی لیکن چونکہ کنبہ بڑا تھا اور سب ہی پڑھ رہے تھے تو ضروریات بھی وقت کیساتھ بڑھتی جاتی تھیں۔ ساس کی وفات کے بعد ہمارے برسر روزگار ہونے تک اماں کی محنت جاری رہی۔
ہمارے ابا جی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگی تو وہ چار ماہ چارپائی پر رہے اس دوران اماں کیساتھ میں انکی ضروریات کیلئے ساتھ ہوتا، اماں کی طبیعت میں اکتاہٹ نہیں تھی سب لوگ سوئے ہوتے تو میں اور اماں نائیلون کی چارپائی پر ابا کو منتقل کرتے اور پھر انہیں لاچا باندھ کر نہلاتے، پھر واپس انکے بستر پر منتقل کرکے کپڑے تبدیل کر دیتے۔ ابا نے پھر سے چلنا پھرنا شروع کیا تو اماں کو نئی فکر نے آن گھیرا، ابا کو شوگر ہوگئی تھی یہ بیماری اماں کو تو کئی سال سے تھی اور وہ انسولین لگاتی تھیں لیکن ابا کو شوگر ہونا ان کیلئے بہت پریشانی کی بات تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی دوائیوں کا خیال رکھتے اور ہمیں بدپرہیزیوں کی شکائیتیں لگاتے۔
بس ایک دن وہ بھی آ گیا جب اماں نے مغرب کی نماز ادا کی اور فارغ ہو کر صوفے پر بیٹھتے ہی ایک جانب لڑک گئیں، اماں کو برین ہیمرج ہوگیا تھا دو دن اماں نے ہسپتال میں بے ہوش گزارے یہ چھوٹے بیٹے کو کویت سے واپس پہنچنے کی مہلت تھی، بس پھر اپنے خالق کی طرف سفر فرما گئیں۔
اناللہ واناالیہ راجعون۔
مدرز ڈے ماں کا عالمی دن ہو یا انکی برسی یہ دن ہم دنیا کیساتھ مل کر انکو یاد کرتے ہیں اور باقی سال کے ہر دن یاد کرتے ہیں اور کئی بار آنکھیں نم کرتے ہیں، بارگاہ الٰہی میں انکے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتے ہیں۔
ہماری دعا ہے جو مائیں حیات ہیں رب کریم انہیں صحت و عافیت کیساتھ سلامت رکھیں اور جو اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکیں رب رحیم ان کیساتھ اپنی شان کے مطابق اپنے فضل کا معاملہ فرمائیں۔