Wo Log Kabhi Toot Ke Bikhra Nahi Karte
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے
ہو سکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں دنیا چاند پر کالونی میں فلیٹوں کی بکنگ کروا رہی ہے، مریخ پر زندگی کے قریب پہنچنے والی ہے اور یہاں ہمارے قلم کار ابھی تک ساس، بہو نند اور گھریلو سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔
تو جناب بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی شروعات، چاہے وہ معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا پس ماندہ ہو۔ ایک گھر اور ایک انسان (جو باپ، بیٹا، شوہر، بیوی، بہن بیٹی ہو سکتا ہے)، سے ہوتی ہیں۔
یہ گھر جتنا پرسکون ہوگا آنے والے بچوں کیلئے اتنی ہی اچھی تربیت گاہ ہوگا اور معاشرہ اتنی ہی زیادہ ترقی کرئے گا۔ انہی بچوں میں کل کے باپ، شوہر، بیٹے، بھائی یا، ماں بہن، بہو، ساس اور بیٹی ہو سکتی ہے۔
جب بیٹا میٹرک میں گیا تو میں نے اس کے سر پر سہرا سجانے کا خواب دیکھنا شروع کیا تھا۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں اس کے چہرے پر مونچھیں سجا کر راتوں رات اسے جوان مرد بنادوں۔ اسکی تعلیم پوری ہو جائے اور کسی بہت اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہو جائے اور پھر میں اس کی زندگی کو خوشیوں سے مکمل کرکے اس کی دلہن لے آؤں۔ میرے ابا مجھے کہتے تھے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت اس کی اماں اس کیلئے جو سوچتی ہے وہ، ویسا ہی بنتا ہے۔ اس لئے جب کوئی عورت ماں بننے جارہی ہو وہ اللہ سے خوب دعائیں مانگا کرے۔
تلاوت اور عبادت میں وقت لگایا کرئے۔ لوگوں کو معاف کردیا کرئے، لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کیا کرئے، اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کیا کرئے۔ میں نے بھی اپنی بساط بھر سارے کام کئے اور دعائیں اپنی بساط سے بڑھ کر، کرتی رہی اور اپنے بزرگوں سے بھی ہمیشہ دعائیں سمیٹتی رہی۔ اللہ نے میری ساس امی کی دعائیں، میری اپنی امی کی دعائیں اور میری دعائیں ایسے قبول فرمائیں کہ بیٹا ہماری دعاؤں سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرتا ہوا تعلیم حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ میرا وہ خواب جو اس کے بچپن سے میری آنکھوں میں بسا ہوا تھا اس کی تعبیر کا وقت آگیا۔ میں کبھی ان لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتی تھی جو جگہ جگہ جا کر بچیوں کو دیکھنے کے بعد مسترد کر دیتے ہیں۔
میری سوچ یہ تھی کہ پہلے بچی کے بارے میں مکمل معلومات لے لیں۔ بچی کو کسی بہانے کسی اور جگہ پر دیکھ لیں۔ کسی بھی بچی کے گھر تب جائیں جب آپ نے اپنا ذہن وہاں رشتہ کرنے کیلئے بنا لیا ہو۔ جب کسی بیٹی کے گھر جائیں تو پھر آپ پیچھے نہ ہٹیں اگر لڑکی والے خود آپ کو مسترد کر دیں تو اسے اپنی انا کا مسئلہ مت بنائیں بلکہ شکر کریں کہ یہاں اللہ کی طرف سے مقدر نہیں جڑا ہوا تھا لیکن آپ نے کسی کی بیٹی کا دل نہیں توڑا۔ اللہ کی ایسی کرم نوازی ہوئی کہ جو پہلی لڑکی دیکھی وہی دل میں جا کر بیٹھ گئی۔ پہلی ملاقات میں بیٹے کو بھی ساتھ ہی لیکر گئی تا کہ دونوں گھرانوں کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ کچھ مہینوں میں وہاں سے رضامندی کا پیغام آگیا۔ گھر میں رسم کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
لیکن، یہ کیا؟
میرا دل تو جیسے کسی نے مٹھی میں بند کر دیا ہو، دل مان کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ میں اپنا بیٹا کسی اور کو دے دوں۔۔ دیکھیں۔۔ ہم سب انسان ہیں، بعض اوقات یہ کیفیت نیک، لائق فرمانبردار بیٹے کی ماں پر آتی ہے۔ کسی پر دلہن کے گھر میں آجانے کے بعد، کسی پر بیٹے اور بہو کو آپس میں خوش دیکھ کر۔
اپنا وہ بچہ جس کو آپ نے بڑی حفاظت سے، محبت سے رکھا ہو وہ کسی اور کو دینے کیلئے بڑا دل اور ظرف چاہئے ہوتا ہے، اس وقت میرے دل کی کیفیت بہت اداس تھی۔ میں خوش تھی لیکن میں اداس بھی تھی، شائد میں عدم تحفظ کا شکار تھی۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ امی کی چند مہینے پہلے وفات ہو چکی تھی کسی اور کو بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ ایک رات میں بہت بے بس ہوگئی میں نے وضو کیا نفل پڑھے اور اللہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ اللہ سے کہا کہ یہ بچوں کی شادیاں کرنا آپکا حکم ہے تو اب میرے دل کو سکون بھی آپ ہی دیں۔۔ تا کہ میں اچھے طریقے سے اس فرض کو ادا کر سکوں۔
اس رات مجھے کچھ سکون ملا۔ لیکن ابھی بھی دل بار، بار پریشان ہو جاتا تھا۔۔
ماں بچہ پیٹ میں رکھتی ہے۔۔ اسے پیدا کرتی ہے۔۔ اسے پالنے میں اپنا رات، دن کا سکون چین لٹا دیتی ہے۔ اسکی تعلیم و تربیت پر اپنا تن، من، دھن لگا دیتی ہے جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر کچھ کمانے کے قابل ہوجاتا ہے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر کسی اور کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔ اس سے پہلے بیٹا گھر داخل ہو کر پہلی آواز ماں کو لگاتا ہے اور شادی کے بعد کتنے کتنے دن تک ماں، بیٹے کا چہرہ دیکھنے کیلئے ترستی رہتی ہے۔ یہ ساری باتیں سوچ سوچ کر میں پریشان ہوتی رہتی تھی۔۔
پھر ایک دن دوبارہ میں نے نفل حاجت پڑھے اور اللہ کے سامنے خوب رو رو کے دعائیں مانگی۔ "یا اللہ۔۔ یہ جو بیٹی میرے گھر میں آرہی ہے۔۔ اسے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادیں، اس آنے والی کو ہمارے گھر میں ذہنی، جسمانی، روحانی سکون والی زندگی دیجئے گا، اسے بہترین ازدواجی زندگی، دائمی خوشیاں اور حق حلال کے کھلے برکت والے رزق دیجیے گا، اسے قابل فخر صحت مند اولادیں دیجیے گا اور اس کے بعد شادی ہونے تک میں صدق دل سے ہر روز نفل حاجت پڑھ کر خوب دل لگا کر آنے والی کی ہمارے گھر میں دائمی خوشیوں کی دعائیں مانگتی رہی۔۔
اس کے بعد شادی ہوگئی سب کچھ بہت اچھے طریقے سے ہوگیا۔ میرے دل کو اب سکون تھا کیونکہ آنے والی لڑکی بہت نیک، خوبصورت اور فرمانبردار بیوی تھی۔
ایک دن میرا بلڈ پریشر بہت ہائی ہوا اور گھر میں ہم دونوں ہی تھیں۔ میں نیم بے ہوشی میں تھی جب ایک پیاری لڑکی اپنے نرم نرم ہاتھوں سے بار،۔ بار میرا بلڈ پریشر چیک کرتی تھی۔۔ کبھی مجھے دباتی تھی۔۔ کبھی میری نبض چیک کرتی تھی۔۔
آپ جان تو گیے ہوں گے کہ وہ پیاری لڑکی میرے بیٹے کی بیگم تھی۔۔ جسے اب میں ہمیشہ اپنی بیٹی کہتی ہوں۔ ہم فرشتے نہیں ہیں۔۔ کبھی نظریاتی اختلاف ہوتا ہے۔۔ لیکن ہم اپنا اپنا نکتہ نظر بڑے احترام اور محبت سے ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔۔
میں کبھی اس کے میکے والوں کی کسی منفی بات نہ اسے جتاتی ہوں نا ہی کسی اور کے سامنے اس کا ذکر کرتی ہوں اور وہ کبھی ہمارے گھر کی کوئی بات اپنی امی کی طرف کسی سے نہیں کرتی۔ کبھی کبھار میں اسے کوئی سوئٹر یا کچھ اور بنا کر دے دیتی ہوں کبھی وہ میرے لئے کوئی تحفہ لے آتی ہے۔ کبھی وہ سورہی ہوتی ہے تو میں بچوں کو ناشتہ بنا کر دے دیتی ہوں تو کبھی وہ نندوں کیلئے کھانے پر کچھ خاص بنا دیتی ہے۔۔
آنے والی بیٹیوں سے یہ کہوں گی کہ کوئی بھی ساس بیٹے کا گھر اور سکون خراب نہیں کرنا چاہتی۔۔ آپ اس کی situation کو سمجھیں۔۔ اپنا بچہ کسی کو دینا، دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔۔ اپنی ساس کو عزت دیں، تحفظ دیں اعتماد دیں۔ وہ مشکل وقت کو گزار کر یہاں تک پہنچی ہیں۔۔ ان کے ساتھ معاملات میں صبر سے کام لیں۔ ساس بننے والی خواتین سے گزارش ہے کہ آپ تو ان سارے مراحل سے گزر چکی ہیں جب آپ گھومنا پھرنا چاہتی تھیں، ہنسنا بولنا چاہتی تھیں سجنا سنورنا چاہتی تھیں اور آپ اگر ایسا نہیں کر، پاتی تھیں تو آپ کتنی دکھی ہوتی تھیں۔۔
تو کیا اب آپ بھی ایسا ہی کریں گی، اب تاریخ بدلنی چاہئیے اور کیوں نہ اس میں پہلا قدم آپ کی طرف سے رکھا جائے۔
آنے والی کو معاف کرنے کا جذبہ رکھیں اسے space دیں۔۔ وہ پہلے گھر بسا کر نہیں آئی۔۔ اسکی رہنمائی کریں۔۔ یقین کریں آپ کو گھر کے اندر جنت جیسا سکون ملے گا
رکھتے ہیں جو اوروں کیلئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے