Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Purane Zamane Ki Maa

Purane Zamane Ki Maa

پرانے زمانے کی ماں

میں پرانے زمانے کی ماں ہوں، جبکہ آج کے زمانے کے بچوں کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتی ہوں۔ پیدل تو، اب نہیں چل سکتی ہوں لیکن ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ساتھ بھاگنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ فیس بک سے پہلے آرکٹ کے زمانے میں بیٹے نے اکاؤنٹ بنا کر دیا تھا، اس کا سلسلہ یہ تھا کہ جو لوگ پہلے سے وہاں موجود تھے بس وہی آپ کو وہاں مدعو کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ جس جس نے آپکی پروفائل کو چیک کیا ہوتا تھا وہ آپ کو دکھائی دے رہے ہوتے تھے اور جس جس کی پروفائل آپ نے دیکھی ہوتی ان کے پاس بھی آپکا نام آرہا ہوتا تھا۔

یہ بات ویسے تو اچھی تھی کہ کس کس نے آپ کی پروفائل کو دیکھا۔۔سب پتہ چل جاتا تھا، لیکن اس لئے بری بھی تھی کہ جس کو ہم چپکے چپکے دیکھ کر آتے تھے انہیں بھی آرکٹ والے، چپکے چپکے بتا دیتے تھے کہ آج ہم آپ کے گھر کی تلاشی لینے آئے تھے۔

پھر ایک اور سائٹ آئی،گوگل پلس کے نام سے وہاں بھی بچوں نے اکاؤنٹ بنایا لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ انہی دنوں میں فیس بک اور اسکے بعد انسٹا گرام اور پھر ٹوئٹر بھی وجود میں آگئے۔ جب بیٹے نے فیس بک پر میرا اکاؤنٹ بنایا تو جو میرا گھریلو نام تھا وہی ادھر لکھ دیا، آپ فرض کر لیں ڈولی قریشی کے نام سے میں یہاں آئی۔ ان دنوں بیٹا اپنی تعلیم کے سلسلے میں پاکستان سے باہر تھا، میں ہر وقت اس کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھتی تھی۔ مقررہ وقت پر بات کرتی تھی اور غیر مقررہ وقت پر اس کا فیس بک کا اکاؤنٹ چیک کر کے دل کو تسلی دیا کرتی تھی کہ ابھی تو سو رہا ہو گا۔

اب آن لائن تو ہے لیکن اہنے یونیورسٹی کے کام کے ساتھ ساتھ کسی وقت فیس بک کو دیکھ لیتا ہو گا، بس اسی طرح خود کو حوصلہ دیتی رہتی تھی کہ شکر ہے خیریت سے ہے لیکن ابھی مصروف ہے اور جونہی وہ اپنی کسی سرگرمی کی یا اپنی تصویر وغیرہ لگاتا تو سب سے پہلے میں اسے لایک کرتی۔ ایک دن اس کے دوستوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھا "یار، یہ ڈالی کون ہے.. کوئی کزن؟ ؟ جو بھی ہے، تم سے پیار بہت کرتی ہے"۔

جب بیٹے نے مجھے بتایا تو مجھے لگا کہ میری وجہ سے شرمندہ ہوتا ہوگا، میں نے چھوٹی سے کہا کہ فیس بک پر میرا کوئی بھاری بھرکم سا نام لکھ دو یہاں تا کہ سب بچوں کو اماں، اماں والی feelings آئیں۔ اور آجکل میں بھی اپنا فیس بک کا یا whatsapp کا last seen ہمیشہ on رکھتی ہوں کہ جب کافی دیر تک بات نہ ہو سکے تو پاکستان سے دور والے بچے شاید دیکھتے ہوں گے کہ امی تو ابھی اٹھی ہی نہیں۔

جب نیا نیا فیسبک پر اکاؤنٹ بنایا تو بہت غلطیاں بھی کیں، ویسے تو خیر ابھی بھی بہت سارے کام غلط ہو جاتے یا کرنے آتے ہی نہیں،جن میں سے تازہ مثال ابھی کچھ دن پہلے میرا اکاؤنٹ بند ہونے والی ہے۔ اور پرانی مثال میں ایک دن مجھے Add friend کی suggestion آرہی تھیں اور ان سب کو پتہ نہیں کیسے میں نے فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی۔

شام کو دیکھا تو اچانک ڈھیر سارے بچوں کے دوست اور سرتاج کے دوست ایڈ ہوئے پڑے تھے، ادھر بیٹی نے کہا "امی۔۔ کیا کرتی ہیں، میری دوست لڑکیاں پوچھ رہی ہیں یہ روبینہ قریشی آپ کی کون ہیں ہمیں فرینڈ ریکویسٹ آئی ہوئی ہے"۔

" پترا.. ایتھے تیرے ابے دے سارے دوست ایڈ ہوئے پئے نیں، پہلے ایناں دا کوئی بندوبست کر"

اور بیٹی سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی، تو میں نے کہا "یہ تو کچھ بھی نہیں، ابھی تو میں نے مزید بوڑھا ہونا اور مزید بڑے بڑے بلنڈر مارنے ہیں۔ کھانا کھا کر کہنا ہے کہ مجھے تو کھانا کسی نے نہیں دی۔۔بس بھوکی بیٹھی ہوں، میری تو کوئی بات ہی نہیں سنتا، میری دوائیاں ختم ہو گئی ہیں کوئی لا کر ہی نہیں دیتا، بیٹوں کی تنخواہوں پر increment لگ گئی ہے تو میرے جیب خرچ پر کیوں نہیں لگی؟

ساتھ والی کو بلا کر کہنا ہے تم مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔۔ ان کے پاس تو وقت نہیں، سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس طرح کے بزرگ اپنے ارد گرد دیکھے ہیں، نہ صرف دیکھے ہیں بلکہ بڑی محبت سے انہیں سنبھالا بھی ہے۔

میری ہر وقت دعا ہوتی ہے کہ اللہ ہمارے بچوں کو ہماری طرف سے کسی امتحان میں نہ ڈالے لیکن انہیں زہنی طور پر تیار تو کرنا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، کیا خیال ہے آپ کا؟

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz