Mera Ghar Meri Jannat
میرا گھر میری جنت
کیا آپ جانتے ہیں ہر باعزت اور پرسکون گھر کے بنانے میں مرد کی بردباری اور تحمل کا حصہ تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خوبصورت گھر کی بنیادوں میں ایک عورت کی عزت نفس، اور انا کی لاش بھی دفن ہوتی ہے۔
ہر سجے سجائے خوبصورت گھر کے در و دیوار میں ایک مرد کی محنت کی کمائی کے ساتھ ساتھ عورت کی اچھی منصوبہ بندی، سلیقے اور شب و روز کی تگ و دو ہوتی ہے۔
ہر لائق فائق بچے کے پیچھے ایک باپ کے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک ماں کی دن کی محنت اور راتوں کو اللہ سے باتیں اور آنسوؤں کے ساتھ مانگی ہوئی دعائیں شامل ہوتی ہیں۔
میری آج کی مخاطب وہ لڑکیاں ہیں جو ابھی کچھ عرصہ پہلے شادی شدہ ہوئی ہیں۔۔ یا آگے، کچھ عرصہ میں شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہی ہیں۔
میری اس تحریر کا مقصد نہ تو غیبت ہے، نہ کسی کو تکلیف دینا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو مکمل ثابت کرنا ہے۔
زندگی گزارنے کے بارے میں ہر انسان کا نظریہ الگ ہے، میں آپ سے وہ باتیں کرنے جا رہی ہوں جو میری اپنی زندگی سے میں نے سیکھی ہیں۔
مجھے ہمیشہ سے میری سہیلیوں اور میرے اردگرد کے لوگوں میں ایک بڑی خوش نصیب عورت کے طور پہ جانا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں خوش نصیب ہوں۔
کیوں کہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب سے خوش ہوتا ہے۔
اس لئے اپنے نصیب سے خوش رہنا سیکھیں۔
بچیو، آپ میری بات کا یقین کریں کوئی بھی عورت جو اپنے بیٹے سے محبت کرتی ہو وہ اپنے بیٹے کی شادی کبھی لڑائی جھگڑے کیلئے نہیں کرتی۔
بس ایک دوسرے کو سمجھنے کا فقدان ہوتا جس کی وجہ سے آپس میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔
ہر ناپسندیدہ بات کا فوری جواب دینے کی بجائے اس کی وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
زندگی کو ہمیشہ خود خوبصورت بنایا جاتا ہے۔
کبھی معاف کر کے
کبھی دل بڑا کر کے
کبھی سمجھوتہ کر کے
کبھی کسی کو بلانے میں، یا صلح میں پہل کر کے۔
کبھی جھگڑے والی بات کو ٹال کے۔
یاد رکھیں۔
صبر اور خاموشی کے ایسے ہتھیار ہیں جو کبھی آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن اس کے باوجود مناسب وقت پہ مناسب لفظوں میں سلیقے سے اپنی بات بتانے کا ہنر آپکو آنا چاہئے۔
جب میری شادی ہوئی تو میری عمر سترہ برس تھی۔
میری شادی کے اگلے دن ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا جس کی رو سے
1: دروازہ بجنے کی صورت میں پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر مرد گھر میں نہیں ہیں تو اندر سے کنڈی یا دروازہ بجا دینا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ گھر میں کوئی مرد نہیں۔
2: کسی فقیرنی کے سامنے نہیں آنا، کیوں کہ یہ گھر گھر اور گلی گلی گھومتی ہیں تو جگہ جگہ گھر کی بہو، بیٹیوں کی تفصیلات بتاتی ہیں۔
3: پردے کا شروع سے ہمارے گھر میں بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ جبکہ میری امی کی طرف بہت کھلا ماحول تھا۔ بہرحال فوری طور پہ میرے برقعے کے ساتھ تیسرا نقاب لگانے کا کہہ دیا گیا۔
4: جس کمرے سے نکلنا ہے بتی پنکھا بند کر کے نکلنا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بجلی سستی اور لوڈ شیڈنگ نہیں تھی۔
5: گھر میں ٹی وی، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کا داخلہ ممنوع ہے۔
6: کہیں آنے جانے اور سہیلیوں کی اجازت نہیں۔
7: پورے گھر میں بلب 25 واٹ سے زیادہ کے نہیں لگ سکتے۔
ان سب باتوں میں کچھ باتیں ایسی تھیں جو میرے امی کے گھر کے ماحول سے یکسر مختلف تھیں اور میرے لیے ان پر عمل کرنا کچھ مشکل تھا لیکن بہرحال شوہر کی محبت آپ کے اندر حوصلہ پیدا کر دیتی ہے۔
پھر نکاح کی کشش دو انسانوں کو محبت کے دھارے کے بہاؤ میں ساتھ ساتھ رہنا سکھا دیتی ہے۔
آپکو ایک گر کی بات بتاؤں
اکثر مرد اپنی بیویوں سے محبوبہ جیسی محبت اور دل داریاں چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ماں جیسی care اور شفقت چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ اپنے طور طریقے ایسے رکھیں جن سے انہیں محبت کے ساتھ ساتھ care ملنے کا بھی احساس ہو۔
کیا آپ جانتی ہیں کہ مرد بنیادی طور پہ آوارہ گرد ہے۔ دنیا کو فتح کرنے والا، دنیا کو کھوجنے والا، اسے زندہ رہنے کیلئے صرف سرائے درکار ہے۔
جبکہ عورت بنیادی طور پہ ماں ہے۔
جب وہ ہوش سنبھالتی ہے تو اپنی گڑیا کے ساتھ اس کی پہلی کھیل ایک ماں کی طرح گھر سنبھالنا ہوتی ہے۔
جب وہ بڑی ہوتی ہے تو اس گھر کو بنانے سنوارنے کیلئے اسے گھر والے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ کبھی اپنی اداؤں سے مرد کے دل کو لبھانے کی کوشش کرتی ہے۔ تو کبھی بچے کی پیاری پیاری حرکتوں سے اس کو اپنے ساتھ باندھتی ہے۔
تو مرد، چاہے وہ بیٹے کے روپ میں ہو یا بھائی یا شوہر کے روپ میں۔۔۔ جب اپنی آمدن ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور گھر کو سجانے میں سنوارنے میں آپکا ساتھ دیتا ہے تو آپکو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ آپ کی خوشی کے لیے یہ سب کر رہا ہے۔
وگرنہ اسے زندگی گزارنے کیلئے۔ اکثر ان لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اپنا حلیہ اپنے شوہر کی پسند کے مطابق رکھیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مرد صرف میک اپ زدہ چہرہ ہی پسند کرتا ہو۔
یہ شروع والے کچھ سال آپ کیلئے مشکل ہیں۔ اس کے بعد آسانیاں، اللہ کی رحمتیں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔
ہر شادی شدہ زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب لڑکی کہتی ہے
اب بس۔ اب میری بس ہو گئی ہے۔ میں مزید صبر نہیں کر سکتی۔
تو اس وقت یہ دیکھیں کہ
کیا آپکا شوہر بچوں کے علاج معالجے، تعلیم و تربیت پہ خرچ کر رہا ہے؟
کیا آپ پر یا بچوں پر ہاتھ اٹھاتا ہے؟
کیا لوگوں میں آپ کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرتا ہے؟
کیا اخلاقی طور پہ غلط سرگرمیوں میں ملوث ہے؟
اگر ان میں سے کسی طرح کی شکائت ہے تو، اپنے والدین اور بھائیوں سے مشورہ کریں ۔ کیونکہ آخر کار آپ کو سنبھالنے والے یہی لوگ ہیں۔
سہیلیاں یا صلاح کار ایک خاص حد سے زیادہ آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
کسی بھی چیز کو بگاڑنا بہت آسان اور سنوارنا بہت مشکل ہوتا ہے، اور اگر ان کے علاوہ مسائل ہیں۔ جیسے جوائنٹ فیملی میں مسائل ہوتے ہیں، تو تھوڑا انتظار کریں۔ اللہ کسی نہ کسی صورت ہاتھ ضرور پکڑ لیتے ہیں۔
دیکھیں۔ ہر لڑکی کا سوالیہ پرچہ الگ ہوتا ہے۔ جسے اس نے اپنی صوابدید سے حل کرنا ہوتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ ہر بیٹی کو اپنے گھر میں مکمل خوشیوں کے ساتھ آباد رکھے۔
یہ تحریر ان بیٹیوں کے لیے ہے جو گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ کام کرنے والی بیٹیوں کے مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی رہنمائی کے لیے یہ تحریر ناکافی ہے۔
(میری آنے والی کتاب کا ایک باب)