Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Maa Ki God, Gharelu Mahol, School Aur Media

Maa Ki God, Gharelu Mahol, School Aur Media

ماں کی گود، گھریلو ماحول، سکول اورمیڈیا

فرد، معاشرے کی اکائی ہے۔۔ جیسے ایک ایک اینٹ کو جوڑیں تو عمارت بنتی ہے بالکل اسی طرح ایک ایک فرد سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ نہائت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے 30 سالوں میں معاشرتی طور پر ہم لوگ ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔

معاشرے میں بے راہروی کے ساتھ ساتھ بے چینی اور انتشار کی ایک ایسی صورتحال پنپ رہی ہے جو کہ اب خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بے راہروی تو جب سے دنیا وجود میں ائی اور ہاروت، ماروت کا واقعہ پیش آیا تب سے یہ نیکی اور بدی کی کش مکش جاری ہے لیکن جذباتی انتشار اور بے چینی کے جو حالات آج کے دور میں ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئے۔

اگر اس کے اسباب پر غور کیا جائے تو ایک سے زیادہ عوامل ایسے ہیں جو اس میں کارفرما ہیں۔

میڈیا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لوگوں کے رحجانات کو بنانے، خیالات کو تبدیل کرنے اور لوگوں کی زہن سازی کے لئے۔۔ لیکن اس سے خیر کا کام لینے کی بجائے شر کا کام لیا جارہا ہے۔ اگر اپ گوگل کریں تو دنیا کے چند سب سے زیادہ شرمناک مواد دیکھنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر آتا ہے۔

دوسری طرف نیوز چینلز نے ریٹنگ کے چکر میں ہر بات کو خبر بنا کر اسے مصالحے لگا کر عوام میں پیش کر کر کے ہماری عوام کو تماش بین قوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

ہماری آنے والی نسلیں ہماری دولت ہیں۔۔ ہمیں انہیں بے راہروی سے، نشہ آور اشیا سے، مذہبی جنون سے شدت پسندی سے بچا کر معاشرے کا مفید رکن بنانا ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کام میں سب سے زیادہ فعال کردار کس کا ہو سکتا ہے؟

اس کے لیے کوئی ایک ادارہ نہیں، کوئی ایک سکول نہیں، کوئی ایک فورم نہیں بلکہ اس کی پہلی بنیادعورت (ماں اورساس) ہے، دوسری بنیاد سکول ہےاور تیسری بنیاد میڈیا ہے۔

عورت کو اللہ نے نسل نو کی پیدائش، پرورش اور تربیت کے لئے بنایا ہے۔ نہیں تو اللہ کے لئے کیا مشکل تھا کہ عورت اور مرد باری باری بچے پیدا کرتے۔

اللہ نے کو عورت صنف نازک اس لئے بنایا ہے کہ وہ گھر کے لئے ہے اور مرد جسمانی اور جذباتی طور پر زیادہ مضبوط اس لئے بنایا ہے کہ وہ باہر کی دنیا سے مقابلہ کرنے کے لئے ہے، ان دونوں فریقین کا اپنا اپنا میدان ہے۔ جو کہ آسان نہیں۔

نسل نو کو زہین، محنتی، دیانت دار، ایمان دار، متحمل مزاج، معاملہ فہم، عقل مند، بہادر، فراخ دل بنانے کے لئے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اس کے بعد اس کی وہ درس گاہ ہے جہاں اس نے دنیاوی ڈگریاں لینی ہیں اور اس کے بعد میڈیا ہے۔

آج سے پہلے پرنٹ میڈیا تھا اس کے بھی بہت گہرے اثرات تھے لیکن آج کے الیکٹرانک میڈیا نے تو جیسے پوری نسل انسانی کو ٹریپ کر لیا ہے۔ اگر ہم گھر کے ماحول اور ماں کی بات کریں تو نپولین نے کہا تھا تم مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔

ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم کچھ ایسے اقدامات کریں جن سے ہمارے آنے والے بچوں کو ایک پرسکون ماں کی گود نصیب ہو۔ شفقت کرنے والا باپ اور محبت کرنے والے گھرانوں میں پیار بھرے رشتے نصیب ہوں۔ اور یہ سب کرنے کے لئے ہمیں گھروں میں پیار بھرا ماحول، افہام و تفہیم کے زریعے معاملات طے کرنا سیکھنا اور سکھانا پڑے گا۔

خاص طور پر ہمیں شادیوں سے پہلے بچوں کو آئندہ زندگی کے بارے میں ضروری رہنمائی اور تربیت دینے کے لیے کچھ ادارے قائم کرنے ہوں گے، اس کام میں ہمیں سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد میڈیا آجاتا ہے، بچوں کو سکول بھیجنے سے بھی پہلے ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہونے کی وجہ سے ان کا تعارف سکول جانے سے پہلے ہی میڈیا سے ہوچکا ہوتا ہے۔

میڈیا سے زہن سازی، تربیت، تفریح، مذہب غرض ہم ہر قسم کی رہنمائی اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں بچوں اور عام لوگوں کی سوچ و فکر کو مخصوص راہوں پر متعین کر سکتے ہیں۔

تین چیزیں ایسی ہیں جن پر توجہ دی جائے تو ہمارا معاشرہ بہت جلد ہی َزہنی طور پر ایک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آسکتا ہے۔ ماں کی گود، گھریلو ماحول، سکول، میڈیا۔

اللہ ہم سب کی رہنمائی فرمائیں۔۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari