Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Kalam e Iqbal Aur Quran

Kalam e Iqbal Aur Quran

کلام اقبال اور قرآن

بچپن میں سکول میں علامہ اقبال کے اشعار یاد کروائے جاتے تھے ہم وہ اشعار ایک روٹین میں یاد کرتے اور حسب موقع اپنے مضامین میں انہیں لکھ کر اپنی تحریر میں حسن پیدا کرتے۔ لیکن ان کی گہرائی میں چھپے ہوئے پیام اقبال کو پوری طرح سمجھ نہ پاتے۔

وقت کچھ آگے بڑھا۔۔ ہم نوجوانی میں آگئے اب کلام اقبال کو کچھ سمجھنا شروع ہوگئے تو محسوس کیا کہ یہ کلام تو ہم نوجوانوں کے لئے ہے۔ ہماری خودی، ہمارے لئے فکر عمل، ہمارے آباؤ اجداد کا شاندار ماضی اور ہماری دور حاضر کی زبوں حالی کا دکھ اقبال کی شاعری میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

وقت کچھ اور آگے بڑھا۔ دنیا کے کام کم ہوتے گئے اور ہمیں قرآن سے جڑنے کا کچھ زیادہ وقت ملنا شروع ہوا تو ہم نے سمجھا کہ کلام اقبال تو قرآن کی منظوم تفسیر ہے۔

اگر آپ کلام اقبال کی روح تک پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو قرآن پڑھنا ہوگا اور اگر آپ قرآن کی آیات کی گہرائی تک پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو کلام اقبال پڑھنا ہوگا۔ ان دونوں کے درمیان گہری مماثلت اور تعلق ہے۔

اقبالؒ کا کلام دراصل قرآنی تعلیمات اور اس کے بنیادی فلسفے کی شاعرانہ وضاحت ہے۔ جس طرح قرآن ایک نظامِ حیات اور رہنمائی کا منبع ہے، اسی طرح کلامِ اقبالؒ بھی مسلمانوں کو ان کے اصلی مقاصد، عزتِ نفس اور عالمگیر ذمہ داریوں کی یاد دلاتا ہے۔ اقبالؒ نے قرآن کو صرف ایک مذہبی کتاب نہیں مانا بلکہ ایک زندہ اور فعال دستورِ حیات کے طور پر پیش کیا اور اسی فکری بنیاد پر ان کی شاعری کھڑی ہے۔

​کلامِ اقبالؒ اور تفسیرِ قرآن کے درمیان سب سے نمایاں مماثلت یہ ہے کہ اقبالؒ نے قرآن کے بنیادی تصورات جیسے توحید (اللہ کی وحدانیت)، رسالت اور آخرت کو اپنی شاعری کا مرکزی موضوع بنایا۔ ان کی شاعری میں "مردِ مومن" کا تصور قرآنی تعلیمات کے مطابق ایک مکمل انسان کی خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے، جو دراصل قرآن کے "انسانِ کامل" کے مثالی نمونے کی ہی وضاحت ہے۔ اسی طرح، ان کا نظریہ "خودی" (Self-hood) اور "بے خودی" (Selflessness) بھی قرآنی روح سے ہم آہنگ ہے جو انسان کو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے، انہیں بروئے کار لانے اور پھر ایک مضبوط اجتماعی نظام کے لیے خود کو وقف کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان کا پورا کلام تلمیحات، استعاروں اور واقعات کے لیے قرآنی مآخذ پر انحصار کرتا ہے، جیسے طورِ سینا، خلیلؑ اور نمرود کے واقعات، جو قارئین کے ذہن میں قرآنی آیات کو تازہ کر دیتے ہیں۔

​قرآن مجید کی ایک اہم تفسیر یہ ہے کہ یہ انسان کو جمود سے نکال کر حرکت و عمل کی ترغیب دیتی ہے۔ قرآن بار بار غور و فکر، مشاہدۂ کائنات اور صالح اعمال پر زور دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں بھی یہی تحریکی روح اور ولولہ انگیز پیغام پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ ملتِ اسلامیہ کو غفلت کی نیند سے جگاتے ہیں اور انہیں ماضی کی شان یاد دلا کر حال کو بدلنے اور ایک مضبوط مستقبل کی تعمیر کے لیے جہدِ مسلسل کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جذبۂ عمل، عشق اور امید کا عنصر اسی قرآنی فلسفہ سے ماخوذ ہے کہ "انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے" لَيُسَ لِلُإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ۔ اس طرح، اقبالؒ کی شاعری قرآنی آیات کے عملی اطلاق کی ایک مؤثر اور دلنشیں تشریح بن جاتی ہے۔

ان کے بہت سارے اشعار من وعن قرآنی آیات کا ترجمہ ہیں۔ مثلاً

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ شعر سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 کے کچھ حصے وضاحت کرتا ہے۔ ترجمہ، "بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کر ڈالیں"۔

اسی طرح سکول کی اسمبلی میں ہرروز پڑھی جانے والی دعا "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کا ایک مصرعہ "برائی سے بچانا خدایا مجھ کو"

وَكَفِّرُ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا۔ سورہ العمران ائت 193

نیک جو راہ ہو، اُس راہ پہ چلانا مجھ کو

اِهُدِنَا الصِّرَاطَ الُمُسُتَقِيمَ- (سورہ فاتحہ)

​ہر شے فانی ہے

كُلُّ مَنُ عَلَيُهَا فَانٍ (سورہ رحمن: 26)

اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا

​اقبال نے براہ راست آیات کے منظوم ترجمے کے بجائے ان کے گہرے اور فعال مفہوم کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے تاکہ مسلمانوں کو قرآن کے پیغام پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔

تدبر والے دماغ ہی ان پیغامات کو سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed