Hazoor e Haq Se Payam Aya (1)
حضورِ حق سے پیام آیا (1)
یہ مئی 2014 کی بات ھے جب بڑی بیٹی نے سعودیہ سے کال کی تو اس نے بتایا کہ امی اس سال میرا حج کا ارادہ ھے تو میں نے آپکی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی ویزہ درخواست بھیج دی ھے تا کہ جب میں حج پہ جاوں تو میرے دونوں بچوں کے پاس آپ ہوں اور آپ اکیلے نہیں سنبھال پائیں گی تو جس بہن کا ویزہ نکل آے اسے بھی ساتھ لانا ھوگا۔آپ دعا کیجیے گا اللہ سارے کام آسان بنا دیں۔جب میں 2012 میں سعودیہ سے واپس آئی تھی تو آتی دفعہ خانہ کعبہ کو اللہ حافظ کہتے ھوے بہت روئی۔
مجھے دوبارہ ادھر جانے کی امید اس طرح نہیں تھی کہ نہ تو مالی وسائل ایسے تھے اور نہ ہی گھریلو مسائل ایسے تھے کہ بظاھر جانے کا امکان نظر آتا۔مریم کی کال سن کے میری آنکھوں سے آنسو رواں ھو گیے امید نظر آرھی تھی کہ شاید میرا پھر بلاوہ ھے اللہ کے گھر سے اور حاضری کا اذن ھے آپ ﷺکے دربار میں۔ایک ہفتہ گزرا تو بیٹی نے بتایا کہ امی آپکا اور دونوں چھوٹی بہنوں کا ویزہ آگیا ھے جو کہ تین ماہ تک کار آمد ہے۔ ابھی مئی کا مہینہ ھے یعنی آپ لوگوں نےاگست تک لازمی سفر کر لینا ھے تو اب بس آجائیں بے شک دونوں بہنوں کو ھی لے آئیں ۔
دونوں بہنوں والی بات تو خیر بہت مشکل تھی۔اب بڑی جاہتی تھی کہ وہ جاے چھوٹی کی خواہش تھی وہ جاے۔ آخر کار میں نے ان سے کہا کہ اس طرح فیصلہ کرنا بہت مشکل ھے تو تم لوگ قرعہ اندازی کر کے فیصلہ کر لو جس کے نام کی پرچی نکل آے۔انکے والد صاحب بھی ساتھ بیٹھ گیے دونوں بچیوں نے بھی حامی بھرلی کہ ہمیں منظور ھوگا جس کا بھی نام نکلا۔بچیوں نے نام لکھے انکے ابو نے بسم اللہ پڑھ کے پرچی اٹھائی اور منتہی کا نام نکل ایا۔
منتہی بہنوں میں درمیانے نمبر والی بیٹی ھے اور وہ میری بہت ھی ، بی بی، سی بیٹی ھے۔ وہ ابھی ابھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد O Level کو کیمسٹری پڑھانا شروع ھوئی تھی۔ اب جس کی پرچی نکلی وہ اور جس کی نہ نکلی وہ دونوں بے اختیار رونا شروع ھو گئی۔ایک کے آنسو خوشی کے تھے اور دوسری کے غم کے۔بہر حال میں نے چھوٹی والی کو پیار کیا اسے حوصلہ دیا وہ ویسے بھی بہت صبر والی بیٹی ھے اسکی پڑھائی بھی ابھی چل رہی تھی شاید ابھی اسکا نہ جانا ھی بہتر ھوگا۔
منتہی بہت خوش خوش ابو کے ساتھ پاسپورٹ آفس گئی۔ ابو سارے لوازمات پورے کرنے میں لگ گئے۔ ابھی تو جانے میں کافی دن تھے ایک شام میں منتہی کے کمرے میں کچھ لینے آئی تو وہ اندھیرے کمرے میں سسکیوں سے رو رہی تھی۔
میں بہت پریشان ھوئی اسکے پاس بیٹھ گیی اور پوچھا کہ کیوں رو رھی ھو۔ وہ تو اور بھی زیادہ رونا شروع ھو گئی، بہت پوچھنے کے بعد اس نے بتایا کہ میں کہاں اس قابل کے آپﷺ کے دربار پہ جاسکوں اور خانہ کعبہ جاسکوں ۔ اسے حوصلہ دیتے ھوے میرے بھی آنسو بہ رہے تھے۔
طے یہ ہوا کہ جون کے آخر میں رمضان المبارک سے پہلے سیٹ کروالی جاے۔یوں اسلام آباد سے ریاض کی سیٹیں بک ھو گئی، ریاض سے ھم لوگوں نے بریدہ، اپنی بیٹی کے گھر جانا تھا۔ کچھ دن رک کے پھر عمرہ کا پروگرام تھا۔۔ میں نے بچوں کیلئے تحائف وغیرہ خریدے یہاں تک کہ جانے میں دو دن رہ گئے۔ مجھے ابھی صحیح تاریخ تو نہیں یاد لیکن یہ یاد ھے کہ جس دن فلائٹ تھی اسی دن کینیڈا سے ایک علامہ صاحب کی پاکستان آمد تھی اور اڑتی اڑتی خبر یہ تھی کہ ایرپورٹ بند کر دیا جاے گا میں اندر اندر پریشان تھی لیکن کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
ادھر بیٹی بھی اس معاملے میں فکر مند تھی شام میں اس نے کال کی کہ امی نیٹ پہ اس وقت دو سیٹیں نظر آرہی ھیں جو کہ لاھور سے مدینہ پاک کی ھیں اگر آپ کہیں تو آپکی سیٹیں تبدیل کروا کے یہ لے لیں ۔۔ میں نے فوراً کہا کہ لے لو،یوں جانے سے صرف ایک دن پہلے اچانک ھمارا پروگرام اللہ کے حکم سے تبدیل ھوگیا۔۔ منتہی ابھی بھی چھپ چھپ کے رویا کرتی تھی کہ میں اس قابل کہاں کہ آپ ﷺکے دربار پہ حاضری دون اور اللہ کی مہمان بنوں۔
جب جہازہمیں لے کے مدینہ منورہ کیلئے اڑان بھر چکا تو میں نے بیٹی کو اپنے ساتھ لگا کے اسے پیار کیا اور پھر اسے کہا کہ تمھاے لیے مدینہ پاک سے بلاوا آیا ھے۔ ورنہ ھم تو پہلے ریاض اترتے، پھر بریدہ جاتے۔ وھاں کوئی اندازہ نہیں تھا ھفتہ یا دو ھفتہ رکنے کے بعد عمرہ کیلئے جاتے۔لیکن اب شاید تمھارےآنسووں کیوجہ سے تمھارے ساتھ میں بھی سیدھا مدینہ پاک جا کے اترونگی، یہ لگ بھگ چار گھنٹوں کی فلایٹ تھی۔ فجر کی ازان کا وقت تھا جب ھمارا جہاز مدینہ شہر میں اترنے کیلئے پر تول رھا تھا۔
پورا مدینہ ہلکی پیلی روشنی میں ڈوبا ھوا تھا۔ اور میرے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کا گھر سفید روشنی میں ایک عجیب روح پرور منظر پیش کر رھا تھا۔۔ یوں لگ رھا تھا جیسے مسجد نبوی کے میناروں سے نور نکل کے آسمان تک جارھا ھو، فضا سے مسجد نبوی کا وہ منظر مجھے لگتا ھے کہ کم ھی لوگون نے دیکھا ھوگا جو اس دن ہم نے دیکھا،مدینہ ایر پورٹ بہت پر سکون نظر آرھا تھا۔
کاغذی کاروائیاں پوری کرنے کے بعد جب ھم باھر نکلے تو سامنے بیٹی داماد اور دونوں بچے نظر آگئے۔ فاطمہ تو خوشی سے چیخیں مرنا شروع ھو گیی۔۔ لالہ۔۔ لالہ۔۔ البتہ آٹھ ماہ کا نواسہ ھمیں دیکھ کے اپنی ماں کو اور زیادہ زور سے چمٹ گیا۔۔
جاری ھے