Bande Da Daru Banda Aye
بندے دا دارو بندہ اے
پچھلے جمعہ کو لاہور گئی تو وہاں جا کر جو پہلا خیال ذہن میں آیا وہ یہ تھا
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔
دو بیٹیاں تو پہلے ہی پاکستان سے باہر ہیں۔ اب سب سے چھوٹی بھی دبئی شفٹ ہوگئی-
اس کے باہر شفٹ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ گئی تو تب تک نواسی پاکستان ہی تھی اس نے ماں کی جگہ پر مجھے فل پروٹوکول دیا رات کو میرے گلے میں بانہیں ڈال کر سوتی تھی لیکن اس مرتبہ گئی تو گھر میں بیٹی کے ساتھ ساتھ نواسی، داماد اور بیٹی کی نند (اس کی شادی ہوگئی) بھی نہیں تھے اور تو اور گھریلو کل وقتی ملازمہ بھی اپنی بہن کی شادی کے لیے ایک ہفتے کی چھٹی پر تھی-
گھر پہنچی تو خالی خالی گھر، خاموش درودیوار، اداس فضا سے میرا دل بھی اداس ہوگیا۔ بھابھی کی طبیعت کچھ ناساز تھی ان کی آنکھوں میں جھانکا تو وہاں اداسی اور انتظار کا عجیب امتزاج تھا-
مجھے لگا کہ انہیں ناسازی طبیعت کے علاوہ آغوش تھراپی کی بھی ضرورت ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ آغوش تھراپی کیا ہوتی ہے؟
یہ ایک نفسیاتی بیماری ہوتی ہے جس کا علاج ماں کی آغوش، ماں کی محبت ماں کی توجہ ماں کی دعا، تھوڑی سی ڈانٹ اور ڈھیر سارا پیار ہوتا ہے۔ اور ہماری عمر میں جب مائیں جا چکی ہوتی ہیں تو ہمارے پیارے جو ہمارے قریب ہوتے ہیں ان کا قرب اور ان کی توجہ ہمارا علاج ہوتے ہیں۔
اس بیماری کی علامت کیا ہوتی ہے؟ جب آپ کو لگے کہ آپ کے پیارے تھک رہے ہیں، انہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا، ان کی سوچ منفی ہوتی جا رہی ہے، انہیں اپنی زمہ داریوں کا بوجھ ان کی بساط سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہا ہے، انہیں دنیا بہت خود غرض اور لوگ مطلب پرست لگ رہے ہیں تو آپ سمجھ لیں کہ اس وقت آپ کے پیارے کو آغوش تھراپی کی ضرورت ہے۔
بھابھی میری سمدھن بھی ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں۔ ہمارے پیارے مرحوم بھائی کی دلدار بیگم ہونے کے ساتھ ساتھ اماں کی بہت عزیز از جان بہو بھی تھیں۔ بھابھی کے ساتھ ہم نے بڑا اچھا وقت گزارا ہوا ہے یہاں تک کہ اب جب کہ اماں بھی نہیں ہیں اور بھائی بھی اللہ کے پاس ہیں لیکن اس گھر کے دروازے آج بھی اسی محبت اور خلوص کے ساتھ ہمارے لئے کھلے ہوئے ہیں جیسے اماں کی زندگی میں ہوتے تھے۔
بھابھی کو جس آغوش تھراپی کی ضرورت تھی وہ تو میں نہیں کر سکتی تھی لیکن میں کوشش تو کر سکتی تھی۔
میں ان کے کمرے میں گئی تو وہ آنکھوں پر بازو رکھے بظاہر سوتی ہوئی نظر آئیں میں کرسی پر بیٹھی تو انہوں نے کھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور مجھے اپنے ساتھ بٹھانے کے لئے ٹانگیں سمیٹتے ہوئے کہا "ادھر میرے پاس آ کر بیٹھ جاؤ۔
ان کے پاس بیٹھ کر میں نے بات چیت کا آغاز کیا "آپ کو یاد ہے بھابھی۔ جب آپ کے رشتے کی ہمیں ہاں ہوئی تھی تو کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا"۔ ہاں، اس وقت میرے ابا جی نے میرے رشتے کے لیے ہاں کی تھی۔
بھابھی کی آنکھوں میں یادوں کے جگنو آنسوؤں کی صورت جگمگانا شروع ہوگئے۔ لو جی پہلی کوشش ہی غلط ہوگئی۔ خیر میں نے ہمت نئی ہاری پھر سے بات شروع کی "اور بھابھی، ہمیں تو لوگوں نے اتنا ڈرایا کہ اتنے بڑے گھر کی بیٹی لے لی ہے آپ لوگوں نے۔ آپا فہمیدہ نے کہا تھا اونٹوں والوں سے یاری لگائیں تو دروازے اونچے رکھنے ہوتے ہیں۔ تم لوگ رشتہ تو یہاں کر رہے ہو آگے نبھاؤ گے کیسے؟
اب بھابھی ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور دلچسپی سے پوچھا
"پھر کیا کہا آپ لوگوں نے؟"
کہنا کیا تھا۔ اماں نے کہا آپ ہماری فکر میں مت گھلیں یہ ہمارا مسئلہ ہے۔
"ہاں یہ تو ہے، اماں ڈرتی نہیں تھیں"۔ تو اور کیا، یاد ہے جب داؤد آپ کو تنگ کرتا تھا تو آپ لوگ اماں کو آواز لگاتے تھے اور اماں کی ایک" گھوری، ہی کافی ہو جاتی تھی"۔
ہاہاہاہاہاہا، واقعی اماں کا بہت رعب تھا، جب سکول میں بھی داؤد کو کسی سے کوئی شکایت ہوتی تھی تو وہاں بھی وہ اماں کی دھمکی دیا کرتا تھا۔
اب بھابھی مسکرا کر پرانی باتیں یاد کر رہی تھیں۔
تھوڑی دیر ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد میں نے تیل کی بوتل اٹھائی اور ان کی پنڈلیوں، پیروں، پاؤں کی ہتھیلیوں، کلائیوں وغیرہ کا مساج کیا ساتھ کچھ چٹکلے اپنے پوتوں اور اپنے جھگڑوں کے سنائے۔
تھوڑی دیر میں بھابھی اٹھ کر کھڑی ہوگئیں اور کہتی ہیں۔ مجھے تو لگ رہا ہے میں ہلکی پھلکی ہوگئی ہوں، میرے اوپر کوئی بوجھ تھا جو اتر گیا ہے۔
جیسے مشین کو کبھی تیل، کبھی صفائی کبھی کسی پرزے کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح ہمارے انسانی جسم کو بھی کبھی خوراک کے علاوہ دوستوں کی، کسی دکھ سننے والے کی، یا ماحول کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑی حقیقت جس کو ہم نے آج کل بہت نظر انداز کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ لاکھ ہمارے پاس انٹرنیٹ ہو، ڈرامے ہوں، فلمیں ہوں لیکن
بندے دا دارو بندہ اے