Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Badshahon Ka Badshah

Badshahon Ka Badshah

بادشاہوں کا بادشاہ

یہ ان دنوں کی بات ہے جب بیٹے کو آرمی میں کمیشن ملا۔ وہ انجنیئرنگ کور میں جنٹل مین کیڈٹ تھا لیکن اسے کولڈ باتھ، رگڑے، سزائیں، ڈرل وغیرہ فائٹنگ آرمی جیسے ہی دی جاتی تھیں۔ تو میں بہت پریشان رہتی تھی کہ انجنیئرنگ کے بچوں نے تو جنگ نہیں لڑنی تو انہیں کیوں اتنی سخت ٹریننگ دی جارہی ہے۔

اگر مجھے علم ہوتا کہ انجنیئرز کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو لڑنے والی آرمی کے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے تو شاید آرمی میں نہ ہی بھیجتی کیوں کہ اس نے تقریباً ہر جگہ ہی اینٹری ٹسٹ پاس کر لیا تھا۔ خیر ایک دن جب میں نے کال کی اس کے نسٹین دوست نے بتایا کہ وہ نماز پڑھنے گیا اور وہیں سجدے میں سو گیا ہے تو میں نے اس کے دوست، جس کے نمبر پر کال کی تھی سے، اسے جگانے سے منع کردیا۔۔

ان دنوں بیٹے نے اپنی سم چھپا کر رکھی ہوتی تھی اور جب موقعہ ملتا تو کسی نسٹین ساتھی کے فون میں ڈال کر بات کر لیتا تھا۔ اللہ کی مدد سے مشکل وقت گزر گیا لیکن پاسنگ آوٹ سے کچھ ہی دن پہلے اس کا میڈیکل کا ایشو آگیا اور اسے پاس آوٹ نہیں کیا گیا۔ اس دن میں بہت دل برداشتہ ہوئی ان دنوں پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ میں نے ادھر ادھر سے پوچھ پاچھ کر جی ایچ کیو کا نمبر ڈھونڈا اور پرویز مشرف کو کال کی۔۔ (ہائے کملی ماں)

ویاں جس کسی نے کال اٹینڈ کی اس نے بڑی تمیز سے بات کی اور فون کرنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بے دھڑک کہا کہ پرویز مشرف سے بات کرنی ہے۔

وہ بندہ بچارہ ہکا بکا۔۔ اس نے دو مرتبہ پوچھا کہ جی کس سے؟

اس غریب کو یقین نہیں آرہا ہوگا کہ یہ کون پاگل ہے۔ خیر جب میں نے پھر سے مضبوط لہجے کے ساتھ کہا کہ مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے تب اس بندے نے مجھے بتایا کہ جی ایسے تو نہیں بات ہوتی۔۔ پہلے ان کے سٹاف افسر کرنل ٹیپو صاحب سے بات کریں پھر وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے یا ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔

سٹاف افسر کو میں نے بتایا کہ میں جی سی نمبر34562۔۔ وغیرہ وغیرہ کی والدہ بات کر رہی ہوں میری پرویز مشرف صاحب سے بات کروائیں۔ کرنل صاحب نے کہا کہ کل فون کیجیے گا۔۔ کل آ گئی پھر فون کیا۔۔ تو جواب ملا کہ جی آج تو کسی میٹنگ میں ہیں دو دن ٹھہر کر بات کیجیے گا۔ اس دوران آئی جی ٹی اینڈ ای جنرل ضرار عظیم کے پی اے سے بھی بات ہوئی لیکن وہاں بھی بات بنی نہیں۔ یعنی ان کے بھی پی اے سے بات ہوئی ذاتی طور پر ان سے بات نہ ہوسکی۔

پھر ایک رات۔۔ روتے روتے میری آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو میرے ذہن میں اللہ نے یہ خیال ڈالا کہ یہ دنیا کے بادشاہ ہیں۔۔ جن سے بات کرنے کے لیے پہلے وقت لینا پڑتا ہے۔ ان کے سٹاف افسر سے بات کرنی ہوتی ہے، کیوں نہ اس سے بات کی جائے جس کے سامنے ان میں سے کسی کی نہیں چلتی۔۔ ایک وہی تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔۔ جس کی رحمت کے دروازے اس وقت بھی کھلے ہوتے ییں جب دنیا کے بادشاہوں کے دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں۔ جو ہر رات صدا دیتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کی جھولی بھر دی جائے۔ ہے کوئی معافی مانگنے والا، ہے کوئی رزق مانگنے والا، ہے کوئی شفا مانگنے والا، ہے کوئی حاجت مانگنے والا۔

بس وہ دن اور آج کا دن۔۔ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے اسی سے کہتی ہوں جو ان مسائل کو حل کرنے پر قادر ہے۔ جو کن فیکون ہے۔ جو میرا رب ہے، جو رب العالمین ہے، جو میرا انتظار کر رہا ہوتا ہے، جس کے پاس میں جاؤں تو خوش ہوجاتا ہے، جو میری غلطیاں یاد کروا کر مجھے شرمندہ نہیں کرتا بلکہ میں جب بھی اس کے پاس جاؤں اسے حال دل سناؤں وہ پوری توجہ سے سنتا ہے۔

کبھی کبھار اللہ ہمیں کوئی ٹھوکر بھی لگا دیتے ہیں۔۔ بس۔۔ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے۔۔

یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ جی۔ بغیر کسی ٹھوکرکے ہمارے دلوں کو اپنی طرف پھیر دیں۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat