Anmol Neki
انمول نیکی
ہر کچھ مہینوں کے بعد میرا چیک اپ ہوتا ہے، پچھلی مرتبہ چیک اپ کیلئے جارہی تھی تو طبیعت کافی خراب تھی۔ جس دن صبح میں نے لاہور جانا تھا تو شاید میرے چہرے پہ کچھ زیادہ تکلیف کے آثار تھے، اس رات سرتاج نے مجھے پاس بٹھا کے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کہا "یار اگر میری طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے تو پلیز مجھے معاف کر دینا"۔
زیادہ متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔ اس طرح کے مکالمے ہمارے گھر میں چلتے رہتے۔۔ کبھی بچے ہم سے، کبھی ہم دونوں ایک دوسرے سے اور اس معاملے میں، میں تو بہت ہی مختلف سوچ کی مالک ہوں کہ گھر میں موجود ہیلپر لڑکیوں سے بھی تیز لہجے میں کچھ کہنے کے بعد معذرت کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتی۔
جب سرتاج نے ایسی بات کی تو میں نے سوچا کہ میں بھی موقعہ سے فایدہ اٹھاؤں، "دیکھیں جی۔۔ آپ نے میرے ساتھ زیادتیاں تو بہت کی ہیں۔۔ اور میں آپ کو معاف بھی کردوں گی۔۔ لیکن ایک شرط پہ"، " چلو پھر اب شرط بھی بتا دو۔۔ پیسے چاہئیں؟
انہیں علم تھا کہ لاہور جا کے چیک اپ کے بعد دوسرا اہم کام شاپنگ ہوتا ہے بیگم صاحبہ کا، نہیں ۔۔ پیسے نہیں چاہئیں ۔۔ بس پہلے آپ وعدہ کریں کہ جو میں کہوں گی وہ آپ مان لیں گے"۔
" اگر ماننے والی بات ہوئی تو ضرور مان لوں گا"۔
اچانک ان کے اندر شوہر والی حس بیدار ہو چکی تھی کہ اب پتہ نہیں کون سی فرمائش آنے والی " دیکھیں ۔۔ پہلے آپ وعدہ کریں" اب پھر میں نے چہرے پہ مظلومیت طاری کر لی۔ میرا بیمار چہرہ دیکھ کے پھر انہیں مجھ پہ ترس آگیا اور کہا " اچھا بابا۔۔ مان لوں گا اب پھوٹو"۔
"وہ بات یہ ہے کہ۔۔ دیکھیں آپ نے وعدہ کیا ہے کہ آپ ناراض بھی نہیں ہوں گے اور میری بات بھی مان لیں گے"
یار۔۔ مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟ اب وہ سچ پہ جھنجھلا کے بولے۔ دیکھیں ۔۔ میں آپ کو اس شرط پہ معاف کروں گی جب آپ بھی مجھے معاف کر دیں ۔۔ وہ جو پیسے میں آپ کی جیب سے بغیر پوچھے لیا کرتی تھی نا۔۔ میں ان کی بات کررہی ہوں ۔۔ بس آپ مجھے معاف کر دیں ۔۔ میں نے بھی آپ کی ساری زیادتیوں کو معاف کیا"۔
میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے سچ پہ بہت افسوس تھا کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا ہوا کہ کبھی کسی بچے کی ٹیوشن فیس کیلئے اور ایک آدھ مرتبہ گھر میں کچھ ضرورت تھی تو میں نے ان کی جیب سے پیسے بغیر اجازت کے لیے تھے۔۔ جن کا میرے دل اور ضمیر پہ بہت بوجھ تھا اور جب یہ سارا معاملہ معافی، تلافی والا خوش اسلوبی سے طے ہو گیا تو اللہ کا شکر ادا کیا۔
جیسے جیسے انسان کی زندگی آگے بڑھتی ہے انسان کی ترجیحات بدلتی ہیں ۔۔ انسان کا زندگی کے بارے میں زاویہ بدلتا ہے۔
***
کرونا میں ہم سب جانتے ہیں کہ سکول، کالج آن لائن بچوں کو پڑھا رہے ہیں ۔۔ لیکن بیچ بیچ میں جب کچھ دنوں کیلئے سکول کالج کھلتے ہیں تو اداروں کی انتظامیہ بچوں سے جلد از جلد فیس جمع کروانے کا کہتی ہے، ایسے ہی ایک دن جب کالج کچھ دن کیلئے کھلے ہوئے تھے تو چھوٹی بیٹی کو کال کی۔۔ وہ مقامی پرائیویٹ کالج میں پڑھاتی ہے۔۔ تو کچھ چپ چپ لگی۔
ایک دو مرتبہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ امی آج لیکچر کے دوران ایک ٹیچر آئیں اور ایک بچی کو کلاس میں سب کے سامنے کھڑا کرکے ڈانٹا کہ آپ کی فیس ابھی تک نہیں آئی۔۔ اور پھر اسے کہا کہ بیگ اٹھائیں اور کلاس سے نکل جائیں ۔۔ اور امی جب وہ کلاس سے جارہی تھی تو اس وقت اس کے چہرے پہ جو تاثرات تھے۔۔
اتنا بتا کہ بیٹی رونا شروع ہو گئی۔۔میرا بھی دل دکھ سے بھر گیا۔۔میں نے فوری طور پہ فیصلہ کیا کہ جو میرے سے ہوسکا وہ میں کر دوں گی۔۔ تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ یہ آخری فیس جائے گی۔
میں نے اس بچی کا نمبر بیٹی سے لیا۔۔ اس کے باپ کو کال کی۔۔ اس سے سارا معاملہ پوچھا۔۔ اور پھر اسے بتایا کہ آپ کی بیٹی کی فیس کا معاملہ ہم لوگ اس طریقے سے کررہے ہیں۔ وہ بندہ بیچارہ حیران۔۔ نہ وہ مجھے جانتا۔۔ نہ کبھی کوئی ملاقات پہلے ہوئی نہ پھر کبھی ہونے کے کوئی امکانات۔ اس نے شکریہ ادا کرنا چاہا تو میں نے اسے شکریہ ادا کرنے سے روک دیا۔ کیوں کہ میں جانتی تھی کہ میں تو صرف ایک مہرہ تھی۔۔ ایک وسیلہ تھی، ایک زریعہ تھی۔
اس کی مدد کا فیصلہ تو رب نے کر دیا تھا۔۔ جب اس بچی نے دکھی دل سے رب کو بتایا ہوگا۔۔۔ یا اس کی ماں کی شائد رات کے پچھلے پہر کی، کوئی دعا ہوگی۔۔اور یہ تو اس رب کی مہربانی کہ اس نے مجھے اس کام کیلئے منتخب کیا۔ اور مجھے اس دن سے اپنے آپ پہ افسوس تھا۔۔ کہ یہ جوانی میں کیوں انسان اپنے آپ کو عقلمند اور بہادر سمجھتا ہے۔۔ کیوں اپنی چالیں لڑتا ہے۔۔
کاش کہ میں کسی رات اللہ کو پکار کے اسے اپنے مسائل بتادیتی تو مجھے شاید اپنے شوہر کی جیب سے بغیر اجازت پیسے لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ہم اپنی پریشانیوں کو کیوں بہت بڑا سمجھتے ہیں ۔۔ جب کہ سب سے بڑا ہمارا رب ہی ہے۔
یہ کیسا خوبصورت لین دین ہے، آپ اپنی پریشانیاں رب کو دیدیں ۔۔ کسی رات کی خاموشی میں ۔۔ کسی دن کی تنہائی میں ۔۔ کبھی جب دل پہ رقت طاری ہو۔۔ کبھی جب آنسو آنکھوں سے نکلنے کو بےقرار ہوں ۔۔ تو وہی تو وقت ہے۔۔ رب سے باتیں کرنے کا۔۔ اسے اپنی دل کی باتیں بتانے کا۔۔
یقین کریں ۔۔ اللہ خود تو زمین پر نہیں آئیں گے۔۔لیکن۔۔ اپنے کسی بندے کے ذمے آپکا کام لگا دیں گے۔ ہم ایک حد تک ہی کوشش کر سکتے ہیں نا۔۔ بس وہی کریں ۔۔ جو جائز حد تک ہے۔۔ باقی نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔
اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو