Ustad Ba Muqabla Dengue
استاد بمقابلہ ڈینگی
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی مسائل کو ہوشیاری سے مزاح کے ساتھ ضم کرکے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی ایک اسکول میں سامنے آتی ہے جس کا محاصرہ روایتی دشمنوں نے نہیں بلکہ ڈینگی کے مسلسل حملے سے ہوا ہے، جو مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والی ایک مہلک بیماری ہے۔ محمد اکمل فخری کہانی کا آغاز یوں کرتے ہیں"جنگ کا طبل بجا چکا تھا ایمر جنسی مراسلے مل چکے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بذریعہ کال اطلاع بھی موصول ہو چکی تھی کہ آپ کا سکول حملے کی زد میں ہے دفاع کے لیے جلدی پہنچو۔ میں اور میرا ساتھی استاد اسلحے سے لیس سر بکفن ہو کر جان ہتھیلی پر رکھ کر وارد سکول ہوئے تو مولوی شہباز درجہ چہارم کو مورچہ سنبھالے دیکھ کر حوصلہ ہوا چلو کچھ تو آسرا ملے گا۔
سائرن مسلسل بج رہے تھے ہمیں دیکھتے ہوئے موصوف نے انگلی کے اشارے سے کسی غیرمرئی دشمن کی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔ ہم خاموش سانس لیتے، ڈرتے ہوئے دبے پاؤں دائیں بائیں دیکھنے لگے کہ کہیں ہم حملے کی زد میں نا آجائیں لیکن ہمیں کہیں بھی کچھ بھی نا ملا تو میں نے اپنے ساتھی استاد سے کہا کہ برقی تار کے ذریعے اطلاع دو علاقہ کلئیر ہے اور کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہے جواب آیا کہ اتنا جلدی کیسے ہو سکتا ہے اس پر ساری دنیا سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ پاکستان بلخصوص پنجاب اس کے نشانے پر ہے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ علاقہ کلئیر ہے ہم بذریعہ دور بین آپ کی نگرانی کر رہے ہیں جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے وہ آپ نہیں دیکھ سکتے بس آپ غائبانہ ہوائی فائر کرو اور جنگ کا آغاز کر دو"۔
فخری نے ڈینگی کے بحران کی سنگینی پر روشنی ڈالنے کے لیے مبالغہ آمیز منظرناموں کا استعمال کرتے ہوئے مزاح اور سماجی تبصرے کا ایک انوکھا امتزاج استعمال کیا ہے۔ کہانی کا آغاز اسکول پر ایک آسنن حملے کے اعلان کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں عجیب و غریب ہتھیاروں سے لیس مرکزی کرداروں کی طرف سے مزاحیہ ردعمل کا آغاز ہوتا ہے، بشمول "سمارٹ ہتھیار" جیسے کہ فلیش لائٹ ایپس سے لدے موبائل فون وغیرہ شامل ہیں۔ محمد اکمل فخری رقمطرا ز ہیں" ہم چارو ناچار بغیر کسی تردد کے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے ہم نے سمارٹ اسلحہ نکالا اور اس سے یکے بعد دیگرے آٹھ فائر داغ دئیے۔ لیکن دشمن کی طرف سے پیش قدمی نا ہوئی یوں کچھ دیر سناٹا طاری ہوگیا۔ اتنے میں مقامی کچھ لوگ بھی جمع ہو گئے میرے ساتھی نے کہا کہ سر اسلحہ کہاں ہے عوام دیکھنا چاہتی ہے کہ کیسا اسلحہ ہے جس سے دشمن ڈھیر ہوگیا ہے زرا دکھائیں تو سہی میں نے جیب سے نکال کر ہوا میں لہرا دیا تو وہ سب متحیر ہوئے کہ سر یہ کیسا اسلحہ ہے یہ تو موبائل فون ہے
یہ کونسا اسلحہ ہے میں نے کہا کہ یہ جدید اسلحہ ہے پرانے اسلحوں کا زمانہ گیا جس طرح کئی چیزوں نے موبائل میں جگہ لے لی ہے وہاں جدید ہتھیار بھی موبائل میں سمٹ چکے ہیں یعنی اب جیب سے موبائل نکالو بس چار پانچ فلیش داغ دو بس دشمن آن کی آن میں ڈھیر ہو جائے گا یا خود بخود ہی فلیش کی چمک سے خود کشی کر لے گا سر جانے دیں ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ جانے دوں کیا مطلب آپ کا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ عوام پوچھ رہی ہے دشمن کون سا ہے اور نظر نہیں آرہا۔ میں نے کہا بھئی دشمن ہمارا بڑا خطرناک ہے جسے ڈینگی کہا جاتا ہے یہ ایک مچھر ہے جس نے ناک میں دم کر رکھا ہے جو صرف تعلیمی اداروں میں وہ بھی صرف چھوٹے اداروں پر حملہ کرتا ہے اس کے لیے اور اس کے خاتمے کے لیے تو پاکستان میں بہت عرصے سے تحقیق ہو رہی تھی بالآخر ایک ایسا شاہکار کارنامہ مل ہی گیا جس سے پاکستان کا نام فخر سے بلند ہوگیا ہے"
کہانی مزاحیہ انداز میں ٹیکنالوجی کے ساتھ سماجی جنون پر تنقید کرتی ہے، کیونکہ کرداروں نے موبائل فون کو مچھروں کے خطرے کے خلاف ایک زبردست ہتھیار سمجھ لیا ہے۔ یہ مضحکہ خیزی فخری کے بنیادی تھیم کو واضح کرتی ہے کہانی میں جدید تکنیکی حل اور حقیقی دنیا کے مسائل کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ محمد اکمل فخری لکھتے ہیں" پاکستانی ماہرین نے JI اور AI کے امتزاج سے ایک ایسا ایڈونچر تیار کیا ہے جس سے دنیا کومہ میں چلی گئی ہے اس ایجاد کے بارے میں تو دنیا ورطہ حیرت میں ہے اور بار بار پوچھ رہی ہے یہ آلہ تیار کیسے کر لیا۔ اور یہاں تک ہی نہیں ماہرین نے مچھر کے DNAمیں کچھ GMO بنا کر اس کے اندر حیرت انگیز خصوصیات پیدا کر دی ہیں اور اسے AI کے تیار کردہ سوفٹ ائیر ڈینگی ایپ سے جوڑ دیا ہے ادھر فلیش مارو ادھر مچھر ہلاک۔ واہ کیا کہنے۔ صدقے جاؤں۔ سپرے کی بھی ضرورت نہیں۔
دوسرے استاد نے سکوت توڑا اور خوشی سے چلاتے ہوئے کہا سر مبارکاں پیغامات موصول ہو رہے ہیں UK سے ایک ساتھی مبارک باد دے رہا ہے کہ بہت کم وقت میں دشمن کا قلع قمع کر دیا۔ اور سر یہ دیکھیں امریکہ سے آپ کے دوست نجم صاحب بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو زندہ سلامت دیکھ کر خوشی ہوئی اور کہہ رہے ہیں کہ منٹوں میں دشمن کا صفایا کرنے والی قوم پتا نہیں مقروض کیسے ہوگئی۔ وہاں امریکہ میں صدر کے ساتھ مل کر کچھ پاکستانی عمائدین قرض معاف کرانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں سر ایک پیغام لندن سے میرے نام پر بھی آیا ہے وہ پوچھ رہے ہیں حملہ صرف سکول پر ہی کیوں ہوا ہے یا باقی محکمے یا گھر اس کی زد میں آئے ہیں تو میں نے کہا کہ انہیں جواب دو مچھر صرف تعلیم دشمن ہیں۔ لو جی سر فرانس سے نکلسن کا پیغام کچھ اس طرح سے آیا ہے وہ کہہ رہا ہے تم جھوٹ بول رہے ہو یہ بھی تمہارا کوئی مشن ہے ہم سے ڈالر بٹورنے کا۔ سر اسے کیا جواب دوں۔ او بھئی اسے کہو کہ یہ سچ ہے کہ یہ کارنامہ صرف ہم پاکستانیوں نے سر انجام دیا ہے"۔
ایک قابل ذکر پہلو فخری کا ستم ظریفی اور کیریکچر کا ماہرانہ استعمال ہے۔ مولوی شہباز جیسے کردار، جنہیں مچھروں کے خلاف ذمہ داری سونپی گئی ہے، مزاحیہ آثار کو سامنے کرتے ہیں جو معاشرتی دقیانوسی تصورات کی عکاسی کرتے ہیں۔ بیانیہ کا یہ اسلوب نہ صرف تفریح کا باعث ہے بلکہ عصری زندگی کی مضحکہ خیزیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ محمد اکمل فخری لکھتے ہیں" اصل میں یہ آپ سے ہڑپ نہیں ہو رہا ہے تم جیلنس ہو رہے ہو۔ لیں سر اس کا جواب سن لیں پھر۔ وہ کہہ رہا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے جو قوم شادیوں کے موقع پر شادی ہالوں میں تصویریں بنا کر اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی ڈی پی پر لگاتی ہو۔ جو قوم pizza، burgers اور sting کے اسٹیٹس اپلوڈ کرتی ہو جو قوم today is my birthday کہہ کر دوسروں سے خود کو وش کراتی ہو وہ بھلا ڈینگی سے جنگ کیسے جیت سکتی ہے۔ سر اب اس کا کیا جواب دوں۔ لا جواب لکھ دو۔ بالآخر ہم سے دور کھڑا مشاعر ہنس رہا تھا لیکن ہم اپنا سا منہ لے کر گھر لوٹ گئے۔ اور جیسے ہی ٹیلی ویژن آن کیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ۔۔ ڈینگی کی وجہ سے آج اتنے مریض دار فانی سےکوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون"۔
مزید برآں، فخری نے بڑی چالاکی سے ڈینگی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد پر سماجی و سیاسی تبصرہ کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کی ہے، کہانی کا کلائمکس، جہاں پاکستانی ماہرین نے جینیات (GMOs) اور AI کو ملانے والی مچھروں کے خاتمے کی ایک اہم حکمت عملی کی نقاب کشائی کی ہے، جو صحت کے چیلنجوں کے ساتھ مل کر ملک کی جدت طرازی کی صلاحیت کے بارے میں زبان درازی کے طور پر کام کرتی ہے۔
مصنف کی یہ کہانی اپنے مضحکہ خیز لہجے کے باوجود "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک سنجیدہ پیغام دیتا ہے۔ فخری کا بیانیہ صحت عامہ کے بحرانوں کی پیچیدگیوں کو مہارت کے ساتھ کھولتا ہے جب کہ غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا کرنے والے عام افراد کی وسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔ مصنف نے پنجاب حکومت پر تنقید کی ہے۔ کہ اس سے بڑی مضحکہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے کہ پنجاب میں اہل عقل و دانش ہونے کے باوجود وہ ڈینگی جیسے مچھر کو بجائے کسی اسپرے سے یا دیگر تدابیر سے ختم کرتے یا کم کرتے۔ لیکن اس کے برعکس ان کی وقوفی دیکھئیے کہ فلیش لائٹ یا کیمرے سے مچھر مارنا چاہتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محمد اکمل فخری کا افسانہ "استاد بمقابلہ ڈینگی" طنزیہ و مزاحیہ افسانے کے ایک خوبصورت ٹکڑے کے طور پر ہمارے سامنے ہے جو وسیع تر معاشرتی مسائل پر خود شناسی کا اشارہ دیتے ہوئے اپنے مزاحیہ مزاج سے قارئین کو خوش کرتا ہے۔ اس کہانی میں محمد اکمل فخری کی داستان گوئی کی صلاحیت نمایاں ہے، جس میں معاشرتی بیہودگیوں پر گہری نظر اور کہانی سنانے کی مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جو کہ دل لگی کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہے میں مصنف کو صحت عامہ اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔