Surriya Haya Ki Shayari
ثریا حیا کی شاعری
ثریا حیا کی اردو غزل زندگی کے سفر اور ہمیشہ گھیرے ہوئے دکھوں کی ایک مختصر جھلک کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعرہ انسانی تجربات کی عارضی نوعیت پر غور کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، ثریا حیا دنیا کے باسیوں کا موازنہ ایک ایسے کارواں سے کرتی ہیں جو کسی بھی لمحے رک سکتا ہے۔ آپ کی شاعری خواہش، تبدیلی اور خاموشی کے موضوعات کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور قارئین کو انسانی وجود کی گہرائیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔
ثریا حیا کی غزل تبدیلی کے موضوع اور خوشی کی انسانی جستجو کے گرد گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ شاعرہ زندگی کی غیر متوقع نوعیت پر غور کرتی ہے، جہاں خوشی اور غم ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی غزل یہ بتاتی ہے کہ غم کا قافلہ کبھی کبھی رک سکتا ہے، لیکن انسان جو زندگی کی رکاوٹوں کے باوجود ہر حال میں اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔
ثریا کی شاعری کا ساخت اور ادبی آلات کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی غزل اردو شاعری کے روایتی ڈھانچے کی پاسداری کرتی ہے، غزل کے اشعار اور شاعری میں موسیقیت کے معیار کو شاعرانہ الفاظ کے استعمال سے بڑھایا جاتا ہے، غزل پڑھنے سے ایک ہم آہنگ بہاؤ پیدا ہوتا ہے۔ شاعرہ نے گہرے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے استعارات، تلمیحات اور تشبیہات کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، کارواں زندگی کے سفر کی نمائندگی کرتا ہے، اور بارش آنسوؤں کی علامت ہے یہ دونوں غزل کی جذباتی گہرائی کو اجاگر کرتے ہیں۔
غزل میں ادبی آلات بھی استعمال کیے گئے ہیں جو کہ درج زیل ہیں:
استعاراتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ "غم کا کارواں" زندگی کے سفر اور اس میں پیش آنے والے چیلنجوں کی علامت ہے۔
مماثلتی انداز سے غزل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "بارش" کا موازنہ آنسوؤں سے کرنا جذباتی ہنگامہ آرائی کو واضح کرتا ہے۔ غزل میں گاؤں کے آس پاس کی خاموشی کو ابدی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کی مستقل نوعیت پر زور دیا گیا ہے۔
غزل کی ابتدائی سطریں قارئین کو دکھ کی عارضی نوعیت پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ کارواں کا رکنا اور پتھر پھینکنے کا عمل مہلت کے لمحات اور زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
آخری موسم کی بارش کا حوالہ اور یہ توقع کہ آنسو رک جائیں گے سے شاعرہ کی حالات میں تبدیلی کی خواہش کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ اس خیال کو سمیٹتا ہے کہ زندگی کی مشکلات آخرکار خوشگوار اوقات کا راستہ ہموار کر دے گی۔
روشنی کی خواہش میں چلنے کا تصور اور اس بات کی غیر یقینی صورت حال کہ کسی کے قدم کب اور کہاں رکیں گے، خوشی کی مسلسل جستجو اور اس جستجو کے غیر متوقع ہونے کے مطلب اور معانی کو ظاہر کرتا ہے۔
گاؤں کے آس پاس کی ابدی خاموشی زندگی میں ایک گہری خاموشی کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں انسان دنیا کی وسعتوں پر غور کرتا ہے۔ یہ فطرت کے سامنے حیرت اور بے قدری کا احساس پیدا کرتا ہے۔
غزل کا اختتام بستیوں، تھکاوٹ اور زندگی کے سفر کی بے یقینی کی عکاسی کرتے ہوئے، نامعلوم منزل کے موضوع کو سمیٹتے ہوئے ہوتا ہے۔
راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا کھوار زبان میں ترجمہ ثریا حیا کی اردو شاعری کے نچوڑ کو سامنے لاتا ہے۔ غزل کی جذباتی گہرائی اور ہمہ گیر موضوعات کو کھوار بولنے والے قارئین تک مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے یہ میری ایک ادنیٰ سی کوشش ہے، ترجمے میں اصل شاعری کی خوبصورتی اور فکر انگیز نوعیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ثریا حیا کی غزل زندگی کی عارضی فطرت اور خوشی کی انسانی جستجو کی ایک گہری کھوج کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ شاعرہ کا استعارہ، تشبیہ اور شخصیت کا استعمال شاعرانہ تجربے کو بڑھاتا ہے، قارئین کو وجود کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا کھوار/چترالی زبان میں ترجمہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اردو شاعری کا جوہر زبان کی رکاوٹوں سے بالاتر ہوکر چترال، مٹلتان کالام اور گلگت-بلتستان کے وادی غذر کی کھوار بولنے والوں تک بھی پہنچے، جس سے اردو کے ساتھ ساتھ کھوار زبان کے زیادہ تر قارئین ثریا حیا کی فکر انگیز افکار و خیالات کی گہرائی اور خوبصورتی سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ثریا حیا کی غزل اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
"غزل"
تم اگر چاہو تو دکھ کے کارواں رک جائیں گے
سنگ برساتے ہوئے کچھ مہرباں رک جائیں گے
کھوار: ته اگر کی مرضی ہوئے تھے غمان کاروان ہال بونی، بوہرت بوشئیاک ای کما مہربان ہال بونی۔
آخری موسم کی بارش بھی لہو برسا گئی
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب اشکِ رواں رک جائیں گے
کھوار: آخیری موسمو بوشیک دی لیئے بوشئیے بغائے، اسپہ یقین اوشوئے کی ہانیسے روان آشرو ہال بونی رے۔
روشنی کی چاہ میں چلتے رہے، بڑھتے رہے
اب قدم لرزاں ہیں دیکھو کب کہاں رک جائیں گے
کھوار: روشتیو تلاشہ کوسیتم، پروشٹی باتم، ہانیسے ڈیک رنزونیان، لوڑور کی کیاوت، کورا ہال بونی۔ اک سکوتِ بیکراں ہے قریہِ جاں پر محیط
ایسا لگتا ہے زمین و آسماں رک جائیں گے
کھوار: ای درنگار خاموشی شیر ژنو ژاغو سورا مسلط، ہموش سارئیران کی زمین اوچے آسنان ہال بونی۔
بستیاں خاموش ہیں اور لوگ بھی سہمے ہوئے
تھا کسے معلوم یوں کارِ جہاں رک جائیں گے
کھوار: دیہہ میھ خاموش اسونی وا روئے دی بوہرتوئیی اسونی، کوستے معلوم اوشوئے ہموش دنیو کوروم ہال بونی رے۔
موجِ طوفاں سے نکل آئے گی جب کشتی حیا
جو ہوا کی زد پہ ہیں وہ بادباں رک جائیں گے
کھوار: طوفانو موجاری ئیی کی نسائے کیاوتکہ کھشٹیی حیا، کیاغکہ ہواو پروشٹہ اسونی ہتے کھشٹی بان رکاو بونی۔