Saghar Siddiqui Ki Shayari Ke Khiwar Mein Manzoom Tarajum
ساغر صدیقی کی شاعری کے کھوار میں منظوم تراجم
اردو اور کھوار دونوں زبانوں میں شاعری طویل عرصے سے اپنی غزلیاتی خوبصورتی، منظوم تراجم اور شاعروں کے خوبصورت افکار و خیالات کے گہرے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔ اردو کے مایہ ناز شاعروں میں ساغر صدیقی ایک قابل ذکر شخصیت کے طور پر پاک و ہند کے ادبی منظر نامے میں یکسان طور پر مقبولیت حاصل کی ہے جن کی نظمیں اور غزلیات اپنی فکری گہرائی، فنی خوبی اور فلسفیانہ خیالات اور حساسیت کی وجہ سے ہر عمر کے قارئین میں مقبول ہوئے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے ایک تراجمی کوشش میں لسانی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے ساغر صدیقی کی شاعری کو کھوار میں منظوم ترجمہ کرنے کا چیلنجنگ فریضہ انجام دینے کی پہلی بار کوشش کی ہے۔
ساغر صدیقی نے اپنی خوبصورت شاعری میں ماحولیات اور موسموں کی شاعرانہ انداز میں تصویر کشی کی ہے، جیسا کہ "پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈھونڈ رہا ہے، پاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہے" میں دیکھا گیا ہے، یہ اشعار شاعر کی خوبصورت تصویر کشی کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں جو قدرتی دنیا، فطری ماحول، بہاروں اور پت جڑ کے موسموں کی خوبصورتی سے عکاسی کرتا ہے۔ موسم بہار کی یہ نظم جنگل کے درختوں سے پتے گرنے کی ایک واضح تصویر کشی پیش کرتی ہے، جو ہم آہنگی اور تجدید کے احساس کو جنم دیتی ہے۔
مزید برآں، سچائی پر اس کا فلسفیانہ انداز کی عکاسی کا منفرد انداز، جس کا اظہار "پاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہے" میں دیکھا گیا ہے" کہ ایک احمق وہ ہے جو دنیا میں سچائی کو تلاش کرتا ہے"، یہ شعر وجودیت کی گہرائی کی تلاش کی علامت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ یہ شعر ایک افراتفری کی دنیا میں سچائی کے غیر محسوس تصور کو سمجھنے کے لیے انسانی جدوجہد کو سنجیدگی سے بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے، جو ساغر صدیقی کی فلسفیانہ خیالات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
شاعری کا ترجمہ کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل ترین فن ہے جس کے لیے نہ صرف الفاظ بلکہ اصل اشعار کے جذبات، لسانی اور ثقافتی باریکیوں کو بھی محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان میں ترجمے کی مہارت اس وقت چمکتی ہے جب کسی شاعر کی شاعری کو کسی اور زبان میں ان کے بنیادی الفاظ کو کھوئے بغیر ترجمہ کیا جائے۔ ساغر کی اردو شاعری کو کھوار کے قالب میں ڈھال کر راقم الحروف نے چترال، مٹلتان کالام اور گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی کھوار بولنے والے کمیونٹی کے قارئین کو ساغر صدیقی کی شاعری کی خوبصورتی اور معانی و مفاہیم سے جوڑنے کی پہلی بار کوشش کی ہے۔
آپ کے ہر شعر میں جذباتی باریکیوں کی حساسیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ
یہ شعر "اس کو تو کبھی مجھ سے محبت ہی نہیں تھی/کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈھونڈ رہا ہے" ساغر صدیقی کی بے مثال و لازوال محبت اور دردِ دل کی تلاش کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی نظمیں اکثر انسانی جذبات و احساسات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ساغر صدیقی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے "کس شہرِ منافق میں تم آ گئے ہو ساغر/اک دوجے کی ہر شخص خطا ڈھونڈ رہا ہے" معاشرتی منافقت اور فیصلہ کن ماحول میں خود اظہار خیال کے چیلنجوں پر ان کی فلسفیانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک سماجی اور ثقافتی وزن ہے جو نسل در نسل اردو کے ساتھ ساتھ کھوار زبان کے قارئین کے سینوں میں بھی نقش ہوتا چلا جائے گا۔
ساغر صدیقی کی شاعری اردو ادب کے لازوال حسن اور لازوال اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ راقم الحروف کے منظوم کھوار تراجم کی کوششوں نے نہ صرف ساغر صدیقی کی شاعری کی رسائی کو علاقائی زبانوں تک بڑھایا ہے بلکہ متنوع ثقافتوں کے درمیان خلیج کو بھی ختم کرنے کی پہلی بار کوشش کی ہے، مختلف زبانوں کے فنی اظہار کے لیے باہمی قدردانی کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اردو اور کھوار دونوں زبانوں میں جذبات، فطرت اور معاشرتی مظاہر کی یہ کھوج شاعرانہ منظر نامے کو مزید تقویت بخشتی ہے، جس سے ہمیں دو متنوع ثقافتوں کی تحقیق سے انسانی تجربات کی گہری سمجھ ملتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ساغر صدیقی کی پوری غزل اور منظوم کھوار تراجم پیش ہیں۔
*
غزل
*
پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈھونڈ رہا ہے
پاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر
اب سر کو چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہا ہے
کل رات تو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دن کے اجالے میں دیا ڈھونڈ رہا ہے
اس کو تو کبھی مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈھونڈ رہا ہے
کس شہرِ منافق میں تم آ گئے ہو ساغر
اک دوجے کی ہر شخص خطا ڈھونڈ رہا ہے
*
منظوم کھوار تراجم
*
چھن چھوریو موسما بوسونیو فضا مشکیران
پھاگل اسور کہ ہیس دنیا وفا مشکیران
تان تان ہوستین ہیس تان دورو پالیئے
ہنیسے سور کھوشتئیکو بچے ژاغا مشکیران
دوش چھویو تھے ہیہ موش روشتی بوژاؤشتائے
نون کو آنوسو روشتیا دیوا
مشکیران؟
ہتؤ کیاوت دی مه سوم محبت تان نو اوشوئے
کھیوتے ہنون وا ہیس مه پتا مشکیران؟
کیہ شہرِ منافقہ تو گیتی آسوس ساغر
ایوال ایوالیو ہر موش ہیارا خطا مشکیران