1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rabiah Fatima Bukhari/
  4. Transgender Bill

Transgender Bill

ٹرانس جینڈر بل

جب بھی، کوئی بھی متنازعہ مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے، خاص طور پہ سوشل میڈیا پہ تو ہر مسئلے سے متعلق ضروری نہیں کہ ہر ایک کے پاس ہی اتنی معلومات اور حقائق ہوں کہ ہر شخص اس پہ رائے سازی کرنے کا اہل قرار دے دیا جائے۔ میں اپنی بات کروں تو آج تک جب جب بھی کوئی متنازعہ مسئلہ سامنے آیا، الحمدللّٰہ اپنی ایک رائے تھی ہر معاملے پہ، جسکا بغیر لگی لپٹی رکھّے ہمیشہ ببانگِ دہل اظہار کیا۔

لیکن اس وقت ٹرانس جینڈر بل کے متعلّق چونکہ میرے پاس کوئی مستند معلومات نہیں تھیں تو میں نے اپنی کوئی بھی رائے دینے سے گریز کیا۔ لیکن ان گزرے دنوں میں بہت کچھ پڑھا اور سنا، بہت سے concepts کلئیر ہوئے ہیں۔ جب ہم کسی معاملے پہ خود کو رائے دینے کا اہل نہیں سمجھتے تب بھی، ہماری تعلیم اور شعور ہمیں کم از کم اس قابل تو بنا ہی دیتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو دیکھ کے، جو اس مقدمے کے دونوں اطراف کھڑے ہیں، یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کا رستہ کون سا ہو گا؟

اس قانوں کی متنازعہ شقّوں کا سب سے بڑا ایڈووکیٹ پاکستانی لبرل طبقہ ہے، جن میں سے اکثر یا تو اعلانیہ ملحد ہیں یا ملحد نما۔ جیو نیوز اس کا بہت بڑا وکیل ہے اور جیو کو کبھی کسی نے سچ کی طرف دیکھا ہو تو میری تصحیح فرما دیں اور مین سٹریم میڈیا پہ ان متنازعہ شقوں کا، کی سب سے بڑا حامی ڈاکٹر مہرب معیز ہے۔ یہ مہرب معیز آپ کو ٹی وی پہ بہت شائستہ، sofisticated، نہایت learned اور تہذیب یافتہ گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔

لیکن اسی کے انسٹا گرام اکاوئنٹ پہ چلے جائیں، (یاد رہے کہ میں نہ تو انسٹا گرام پہ ہوں، نہ ہی اسے فالو کرتی ہوں، گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پہ اسے بہت سنا کہ ان کا نقطہء نظر بھی سمجھنا چاہ رہی تھی)، اس کے پوڈ کاسٹس سن لیں، نہایت بیہودہ، لچر اندازِ گفتگو ہے، بات بات پہ گالیاں بکتا ہے، سرِعام سگریٹ، چرس اور شراب نوشی کرتا ہے، اپنی س ی ک س کی کہانیاں سناتا ہے۔

اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس صنف کے پاس جاتا ہے اس مقصد کیلئے، اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ میں نے دنیا کا ہر نشہ کیا ہے، سوائے ایک سنا ہے کہ بچّھو کی دم کو سکھا کے، اس کا نشہ کیا جاتا ہے، اس جواب پہ پوڈ کاسٹ کا میزبان ڈھٹائی سے دانت نکال کے کہتا ہے کہ میں نے بھی ہر نشہ کر رکھّا ہے۔ ہم جنس پرستی کا بہت بڑا حامی ہے۔ بلکہ اس کے الفاظ ہیں کہ میں homosexuality کی حمایت کرنے نہیں آئی بلکہ heterosexuality پہ سوال اٹھانے آئی ہوں۔

ایک انٹرویو میں ایک س ی ک س ٹوائے ہاتھ میں پکڑے بیٹھا ہے۔ اپنے ایک پوڈ کاسٹ کی تشہیری تصویر میں نہایت بیہودہ اشارے کرتے ہوئے تصویر کھنچوائی ہے، جو اس انٹرویو کے تھمبنیل پہ لگی ہے۔ یعنی اس شخص کی اخلاقی پستی کی کوئی انتہاء ہے ہی نہیں۔ ایک ایسا شخص جن قانونی شقّوں کا پر زور حامی ہے، اس سے ہم اپنی آمدہ نسلوں کیلئے کس خیر اور بھلائی کی توقّع کر سکتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں ان کا ایجنڈا صرف اور صرف وطنِ عزیز میں نوجوان نسل میں بےحیائی کا فروغ ہے، اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal