Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Social Media Aur Aaj Ki Nasal

Social Media Aur Aaj Ki Nasal

سوشل میڈیا اور آج کی نسل

سارا دن ٹی وی ڈراموں، کمرشلز، اب تو نیٹ فلِکس سیریز، ٹیلی فلمز یعنی ہمہ قسم میڈیا پہ نوجوان بچّوں اور بچیوں کے تعلّق کو ایک بالکل عام، معمول کی کارروائی دکھایا جاتا ہے۔ بچّے اور بچیاں ہمارے دور کے بچّوں کی طرح نہ تو والدین کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں، نہ ہی خود کو بچّہ۔ زرا قد نکلا نہیں تو یہ عقلِ کُل بن جاتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ والدین بھی اِس صورتحال کو بالکل ہی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

سوشل میڈیا پہ یہ ایک لطیفہ ہے کہ ہماری نہ ہمارے والدین سُنا کرتے تھے، نہ ہی ہماری اولاد۔ حالانکہ تھوڑی دیر کےلئے گہرائی میں جا کے سوچیں تو یہ کِس قدر خطرناک صورتحال ہے کہ اِس کی سنگینی کی کوئی حد ہی نہیں۔ لے دے کے ایک سوشل میڈیا تھا، جہاں اِس دن بہ دِن مین سٹریم میڈیا کے بےلگام ہوتے معاملات پہ آواز اُٹھائی جاتی تھی۔

میڈیا کے ذریعے پھیلتی عریانی اور فحاشی، محرماتِ ابدی کی حُرمت کو پامال کرتے، نہایت بیہودگی پہ مبنی ڈرامہ سیریلز، ڈراموں اور کمرشلز میں عام کئے جانے والے گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کلچر کے معاشرے پہ سنگین اثرات کا رونا رویا جاتا تھا۔ معاشرے میں شرم و حیا کی تجدید کی اہمیّت پہ زور دیا جاتا تھا۔ لیکن ہم آج بحیثیّت معاشرہ اُس پستی کا شکار ہو گئے ہیں کہ والدین کو سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ نوجوان لڑکے، لڑکی کا آپس میں تعلّق کوئی غیر فطری حرکت نہیں ہے۔

اگر آپ کی بیٹی کسی کی گرل فرینڈ ہے تو یہ کوئی پریشان کُن بات نہیں ہے۔ دِل بڑا کیجئیے، بچّوں کی پسند ناپسند کو مدِّنظر رکھ کے اُن کی شادیاں کیجئیے۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں قائم ہونے والی لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستیاں صرف اور صرف وقت گُزاری کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

سوائے ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینے کے، ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑکے بیٹھنے کے، ایک دوسرے کی سالگرہوں پہ وش کرنے کے، یا کوئی بہت بولڈ کپل ہوا تو لڑکی کی لاش اسقاطِ حمل کے دوران ہسپتال سے برآمد ہونے کا افسوسناک واقعہ دیکھنے کو ملتا ہے یا لڑکی لڑکے کو سرِ عام پروپوز کر کے، بوس و کنار کے مناظر فلمبند کر کے بھی صرف اور صرف والدین کی رُسوائی اور اپنے تعلیمی کیرئیر کی بربادی کے سوا کُچھ حاصل نہیں کر پاتی۔

یونیورسٹی کے طالب علم لڑکے کو زندگی میں سیٹل ہونے کےلئےکم از کم بھی چار سال درکار ہوتے ہیں، جبکہ ماسٹرز کرنےوالی بچیاں عموماً ماسٹرز کے فی الفور بعد رشتہء ازدواج میں مُنسلک ہو جاتی ہیں تو یہ تعلّق عملاً منطقی انجام تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ میرا خیال ہے کہ شاز و نادر ہی کوئی بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے کا کامیاب سفر طے کرتے ہوں گے۔

اور انٹرنیٹ کی دوستیاں تو ویسے ہی اندھی کھائی میں، اندھا دُھند ماری جانے والی چھلانگ کے مُترادف ہیں۔ اب اِس طرح کے ماحول میں کوئی تو ہو جو نوجوان بچّے بچیوں کو شرم و حیا کا درس دے، کوئی تو اُنہیں پاکیزہ جوانی کی راہ دکھائے۔ کوئی تو اِنٹرنیٹ اِستعمال کرنے والے نوجوان بچّے بچیوں کو بتائےکہ تُمہاری شادی جہاں کاتبِ تقدیر نے لکھّی ہے، وہیں ہو گی۔

جلد یا بدیر، تو خود کو پاک باز رکھّو تاکہ تُمہیں پاک باز ساتھی عطا کیا جائے اور کل تُمہاری اولاد بھی پاک باز ہو۔ اللہ پاک کا واضح فیصلہ ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کےلئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کےلئے ہیں۔ جب دیکھتے ہو کہ اِس BF، GF کلچر نے سوائے معاشرتی بےراہ روی، لڑکوں کے بالعموم اور لڑکیوں کے بالخصوص جذباتی اور جسمانی استحصال کے کُچھ نہیں دینا۔ پھر اپنے لئے خود دُنیا و عُقبٰی کی رُسوائی مُول لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟

خُدارا نوجوانو! اپنے حالوں پہ اور اپنے ماں باپ کے حالوں پہ رحم کرو۔ اِس دُنیا میں تُمہارے سب سے بڑے خیرخواہ تُمہارے والدین ہیں۔ جس لڑکے کی خاطر اپنے والدین کی عزّت کو بٹّہ لگا کے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتی ہو، اُس کے گھر میں تُم اچھوت سے بھی بدتر سمجھی جاؤ گی۔ اور وہ لڑکی جس نے اپنے والدین کی عزّت پامال کرتے ایک لمحے کےلئے نہیں سوچا، وہ کل کو تُمہاری عزّت کی کتنی لاج رکھ لے گی؟

میں یہ نہیں کہتی کہ کسی نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند آ جانا خلافِ فطرت یا قابلِ نفرت ہے لیکن اِس نام نہاد پسندیدگی کے نام پہ جو کُچھ آج کل رائج ہو چکاہے، یہ ہماری اقدار، خاندانی نظام اور معاشرے کےلئے زہرِ قاتل ہے۔ اگر تو شادی کا ارادہ ہو اور اتنے وسائل ہوں اور والدین تعاون کرنےوالے تو پہلا قدم ہی رشتہ طے کر دینا ہونا چاہیئے۔ اور اگر شادی نہیں کرنی تو خدارا حوّا کی بیٹیو! کسی خبیث مرد کی وقت گُزاری کا آلہ کار ہرگِز ہرگِز مت بنو۔ وما علینا اِلّا البلٰغ۔

Check Also

Riyasat Ba Muqabla Imran Khan Aur Do Number Inqelabi

By Nusrat Javed