Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Siyasatdan

Siyasatdan

سیاستدان

آپ سب معزّز خواتین و حضرات جانتے ہیں کہ سیاست کبھی بھی میرا موضوع نہیں رہا، کبھی کبھار کسی خاص مسئلے کی وجہ سے سیاست پہ خامہ فرسائی کر لیتی ہوں۔ میں نہ تو خود کو کسی سیاسی پارٹی کا کارکُن سمجھتی ہوں، نہ ہی اپنے کسی بھی سیاستدان کو اپنا لیڈر۔ البتّہ میں بہت ابتداء سے ہی give the devil its due کی قائل ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جس بھی حُکمران نے، جس بھی دور میں، مُلک کیلئے کسی بھی حوالے سے کُچھ بھی بہتری لانے کی کوشش کی، اُسے acknowledge کرنا چاہیئے۔

اور جس کی جہاں جو خامیاں ہیں، اُنہیں سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کے ہدفِ تنقید (ہدفِ دُشنام نہیں) بنانا چاہیئے اور یہ تنقید، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیئے، تنقید برائے تنقید نہیں۔ میں اِس حوالے سے بالکل دوٹوک موءقف رکھتی ہوتی ہوں کہ کوئی بھی سیاستدان نہ تو محض شیطان ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ۔ ہر ایک نے کہیں نہ کہیں، کُچھ نہ کُچھ contribute کیا ہی ہے۔ اور بہت سی غلطیوں بلکہ بعض گُناہوں کے داغ بھی تقریباً ہر ایک کے دامن پہ ہیں۔

البتّہ ایک اعتراف میں ضرور کروں گی کہ سابقہ حُکمرانوں کی نسبت، کہ اُن کے کرپشن کے کارنامے اب طشت ازبام ہو چُکےہیں۔ مُجھے بہت ابتداء سے ہی عمران خان میں ایک اُمّید کی کرن دکھائی دیتی تھی۔ آج بھی مُجھے رات سے خان صاحب کے جانے کا دلی رنج ہے کہ قومی خودمُختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی کا جو وژن خان صاحب نے پیش کیا، اِس سے پہلے ہم اِس نوع کی کسی بھی مظہر سے مکمّل نابلد تھے۔

یہ شعور بلاشُبہ خان صاحب کی دین ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ میں محبّانِ عمران کے سوا ہر ایک کو غدّار سمجھتی ہوں یا جاہل خُدانخواستہ میں حُبِّ عمران کو حُبِّ وطن کا پیمانہ ہرگِز نہیں سمجھتی، میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک باشعور انسان اپنا سیاسی نظریہ رکھنے میں اُتنا ہی آزاد ہے جتنا کہ عمران خان کے فالوورز۔

ہر ایک کو اپنے لیڈر سے مُلک کی بہتری کی ویسی ہی توقّعات ہیں، جیسی ہمیں خان صاحب سے تھیں۔ ہر ایک کو عمران خان کی خامیاں اور کوتاہیاں ویسے ہی بہت بڑے بڑے blunders دکھائی دیتے ہیں، جیسے ہمیں باقی سیاستدانوں کے، لیکن کیا ہمیں سیاست اور سیاستدانوں کیلئے باہم دست و گریبان ہو جانا چاہیئے؟

کیا انصانفینز کو یوتھیا، مولانا کے پیروکاروں کو فضلا، ن لیگ کے فالوورز کو پٹواری یا اب بھکاری کہے بغیر اپنا اپنا نقطہء نظر سب کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا؟ اب تو سوشل میڈیا کی بدولت ہم سبھی جانتے ہیں کہ جن سیاستدانوں کی خاطر عوام ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہتے ہیں، وہ اپنے اپنیے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئےکسی بھی حد تک جا کے، اپنے کسی بھی بدترین مُخالف کے ساتھ ہاتھ ملا لیتے ہیں۔ اور اِس میں کوئی ایک بھی سیاستدان استثناء نہیں رکھتا۔

اِن گُزرے دِنوں میں اور خاص طور پہ آج رات، جذبات کی شدّت میں کی گئی مختصر سیاسی پوسٹس میں اپنی ٹائم لائن سے ہٹا رہی ہوں۔ میں نے کسی بھی بدمزگی سے بچنے کیلئے اکثر تبصروں کے جواب بھی نہیں دئیے۔ آپ سب کوئی بھی سیاسی نظریہ رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مسلک سے تعلّق رکھتے ہوں۔ میرے لئے انتہائی قابلِ احترام ہیں۔

اور مُجھے سب سے زیادہ خوشی اِس بات کی ہے کہ تقریباً ہر ایک لکھاری کو اِن دنوں میں بہت سے لوگوں کو انفرینڈ یا بلاک کرنا پڑا کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دُشمنی سمجھ کے نہایت نامناسب تبصرے کئے گئے۔ لیکن میری وال پہ الحمدُللّٰہ کوئی ایک بھی غیرشائستہ تبصرہ پڑھنے کو نہیں مِلا۔ اِس کیلئے آپ سب کی دِلی طور پہ شُکرگُزار ہوں۔ اورکسی کی بھی دلآزاری ہوئی ہو تو دِلی طور پہ معذرت خواہ ہوں۔ اب سے اِن شاءاللّٰہ کوئی سیاسی پوسٹ میری ٹائم لائن پہ نہیں ملے گی۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti