Shadiyan Aur Dhol Dhamakke
شادیاں اور ڈھول ڈھمکے
آج ہمارے نئے محلّے میں، گھر کے عین سامنے گلی میں مہندی کے ڈھول بج رہے ہیں۔
ہمارا تعلّق ایک دیندار گھرانے سے ہے۔ ہمارے ہاں شادیاں سادگی سے ہوتی ہیں، باقی تو ہر خوشی منائی جاتی ہے، ڈھول ڈھمکّا بالکل نہیں ہوتا۔ رسمِ حنا کے دن ایک محفل منعقد ہوتی ہے، جس میں قرآن خوانی کی جاتی ہے، پھر نعت خوانی اور دعا وغیرہ۔ اس کے بعد دلہن کو تیّار کر کے، اس کو مہندی لگائی جاتی ہے۔
نوجوان بچیاں گھر کے اندر ایک کمرے میں ڈھولک پہ شادی کے گیت گالیتی ہیں۔ اور اگلے دن اسی طرح چپ چپاتے بارات لڑکی والوں کے گھر پہنچتی ہے، زیادہ ہی ہوا تو بارات منزل پہ پہنچتے ایک دو پٹاخے پھوڑ دئیے جاتے ہیں، وہ بھی ہمارے گھر کی کسی شادی میں نہیں ہوا۔
ہمارا ہمیشہ سے یہی طریقہ ہے۔ جس محلّے میں میرا میکہ ہے وہ سارے ہی ہمارے رشتہ دار ہیں، دور کے یا نزدیک کے، دوسری برادریوں کے لوگ بھی ہیں، لیکن وہاں ہمیشہ شادیاں اسی طرح ہوتے دیکھیں۔ ایک آدھ برادری میں دُھوم دھڑکا ہوتا ہے لیکن ہم سے کافی فاصلے پہ بستے ہیں تو کبھی احساس نہیں ہوا۔
اب ہوا یوں کہ میں بیاہ کے آئی تو اپنے تایا جی کے گھر ہی، لیکن ہمارا گھر اپنی برادری سے تھوڑا ہٹ کے ہے، ہمارے ارد گرد ایک دو کشمیری گھرانے، باقی سارے دوسری برادریوں کے لوگ بستے ہیں۔ بہت اچّھے محلّےدار ہیں۔ سبھی بہت عزّت کرتے ہیں۔
اپنی بہن بیٹیوں کی طرح لیکن یہاں آ کے میں نے شادیوں کا بالکل ہی مختلف ماحول دیکھا۔ مہندی کی رات سرِ شام ہی شادی والے گھر میں فُل والیوم میں شادی کے گانے بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو مہندی کی تقریب کے اختتام تک پورے بلند آہنگ سے جاری رہتا ہے۔ جو تقریباً پوری رات پہ محیط ہوتا ہے۔
درمیان میں کم از کم دو تین گھنٹوں کیلئے ڈھول پیٹا جاتا ہے اور ڈھول کی تھاپ پہ بھنگڑا ڈالا جاتا ہے، گلی میں ہی یہ سارا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کا خوشی منانے کا اپنا انداز ہے، لیکن یہ خوشی ہمسایوں پہ کتنی بھاری پڑتی ہے، آپ لوگ صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔ اس وقت ہم بھی اسی نوع کی ایک رسمِ حِنا کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔
ہماری سامنے والی گلی کے ایک بچّے کی مہندی ہے، اس کا انتظام ہمارے گھر کی عقبی گلی میں عین ہمارے گھر کے پیچھے موجود پلاٹ میں کیا گیا ہے، اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ڈیک میرے کمرے کی میز پہ دھرا ہے اور ڈھول والا ہمارے سرہانے کھڑا ڈھول پیٹ رہا ہے۔ بچّے بہت ہی مشکل سے، تڑپ تڑپ کے سوئے ہیں کہ شور ناقابلِ برداشت ہے۔ میں باوجود بہت کوشش کے آنکھ تک نہیں لگا سکی ابھی تک۔
اس سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللّٰہ آپ کو خوشیاں دے، خوشیاں منائیے، بالکل منائیے، جیسے آپ کا جی چاہتا ہے، ویسے خوشی کا اظہار کیجئیے، لیکن خدارا یہ ضرور ایک لمحے کیلئے سوچ لیجئیے گا کہ آپ کی celebration کسی اور کیلئے وبال ہی نہ بن جائے کہ حقوق العباد میں قریبی اعِزّاء کے بعد سب سے زیادہ حقوق ہمسایوں کے ہوتے ہیں۔ اللّٰہ پاک ہم سب کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔