1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rabiah Fatima Bukhari/
  4. Noise Pollution

Noise Pollution

نویس پولیوشن

مجھے لگتا ہے کہ پاکستان گلوبل noise pollution کے انڈیکس میں سرِ فہرست ممالک میں سے ایک ہو گا۔ ہمارا من حیث القوم مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ ہم اپنے اطراف کے لوگوں کو اذیّت دئیے بغیر خوشی منا ہی نہیں سکتے۔ شادی ہے تو جب تک کان پھاڑ دینے والا میوزک ہم بڑے والے ڈیک پہ نہیں چلائیں گے، بلکہ پورا مہینہ چلائے ہی نہیں رکھیّں گے، ہماری خوشی مکمّل نہیں ہو گی۔ مہندی کی رات، پوری رات ڈھول پیٹتے پیٹتے نہیں گزرے گی تو اس مہندی کو مہندی کون کہے گا؟

محرّم الحرام کے دن ہیں تو جب تک بلند ترین آہنگ میں نوحے اور مرثیے نہیں چلیں گے، غمِ حُسینؑ نامکمّل ہے۔ عید میلاد النّبیؐ ہے تو پوری آواز کے ساتھ، سارے محلّے میں نعتیں نہیں گونجیں گی تو عشقِ نبیؐ کے تقاضے نامکمّل رہ جائیں گے۔ یہ معاملات تو جب سے دنیا میں آئی ہوں، دیکھ ہی رہی ہوں۔ لیکن اب یہ شیطانی راگ جو وطنِ عزیز میں متعارف ہوا ہے، جشنِ آزادی کے باجوں کا، ان پہ تو جو کچھ میرے دل میں آ رہا ہے، کاش کہ میں وہ لکھ سکتی۔

ایک چیز ہوتی ہے Civic sense، مجھے لگتا ہے کہ ہماری قوم کے قریب تک سے یہ لفظ نہیں گزر کے گیا۔ یہ کیسی عبادت ہے، یہ کیسی خوشی ہے، یہ کیسا جشن ہے؟ جو ہم اپنے اطراف میں موجود ہر انسان کو اذیّت میں مبتلا کر کے مناتے ہیں۔ کون سا ایسا گھر ہے، جہاں طلباء نہ ہوں، جن کو پڑھنے کیلئے ایک پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، گھروں میں بزرگ ہوتے ہیں، جن کیلئے بچّوں کے کھیل کود کا شور برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

بہت سے گھروں میں مرد حضرات یا خواتین ذہنی مشقّت کے کسی کام میں مصروف ہوتے ہوں گے، اور سب سے زیادہ اذیّت سے وہ لوگ گزرتے ہیں، جن کے گھروں میں کسی موذی مرض میں مبتلا کوئی ان کا بہت پیارا، تکلیف سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ ہم نے یہ اذیّت پورے چار سال سہی ہے اور میں الفاظ میں نہیں بتا سکتی کہ یہ اذیّت کیسی بے بسی کا احساس ساتھ لے کے آتی ہے۔

خدا کیلئے اپنے بچّوں کے اندر احساسِ ہمدردی پیدا کریں، یہ کوئی منطق نہیں ہے کہ ایک دن کی ہی تو بات ہے، کیا پتہ کہ وہ دن کتنے "ہاشم رضاؤں" کے سفرِ آخرت کا دن ہو، وہ دن کتنے مریضوں کے تکلیف کی شدّت میں گزرنے والا دن ہو۔ Empathy تو الّاماشاءاللّٰہ ہمارے معاشرے میں نام کی بھی نہیں ہے، کم از کم اپنی اولاد کو sympathy تو سکھائیں۔ انہیں شہری حس کے بارے میں بتائیں۔ جنہیں باجوں کا بہت "چاء چڑھا" ہوا ہے۔

گھروں کی چار دیواریوں میں اپنے اپنے بچّوں کے جشن کا اہتمام کر لیں۔ تاکہ مخلوقِ خدا ان کے شر سے محفوظ رہے۔ اور اوپر جن معاملات کا تذکرہ ہے، خدارا کوئی فتوٰی لگانے کی بجائے، صرف ہمدردانہ انداز سے غور کریں گے تو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ہر مسجد میں internal speakers موجود ہوتے ہیں۔ راتوں کو جو محافل منعقد کی جائیں، internal speakers پہ ہی کی جائیں تو کتنے ہی لوگوں کا بھلا ہو جائے گا اور انسانوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا یقیناً بہت بڑی عبادت ہے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman