Bachon Ko Rishte Ka Ehteram Sekhain
بچّوں کو رشتے کا احترام سکھائیں
خواتین کے ایک گروپ میں ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا بچّوں کو اپنے والدین کے علاوہ باقی قریبی اعزّاء سے کسی بھی قسم کی فرمائش کرنی چاہیئے؟ ؟ بہت سے تبصرے کئے گئے۔ بہت ساری خواتین نے مجھ سمیت یہ کہا کہ نہیں، بچّوں کوصرف اور صرف والدین سے فرمائش کرنے کی عادت ہونی چاہیئے۔ میرے بچّوں کو سوائے ہم دونوں کے، کسی سے بھی فرمائش کرنے کی نہ اجازت ہے، نہ عادت۔ یہاں تک کہ دادا جی، دادی جی، نانا جی، نانو، ماموں اور چاچو تک کسی سے بھی فرمائش نہیں کرتے۔
کچھ خواتین نے کہا کہ بہت قریبی اعزّاء سے فرمائش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جس کو جس طرح درست لگا سب نے بتایا۔ ایک مائینڈ سیٹ دیکھنے کو ملا، جو مجھے خاصا عجیب لگا۔ چند ایک خواتین نے کہا کہ بچّوں کو ہم میّاں بیوی کے علاوہ صرف نانا، نانی سے فرمائش کرنے کی اجازت ہے۔ ۔ !! مطلب کیوں بھئی۔ ۔؟ ؟ ؟ نانا نانی آپ کے والدین ہیں اور آپ سمجھتی ہیں کہ بچّوں کی اُن کے ساتھ قربت ہونی چاہیئے تو دادا، دادی جو اُن کے باپ کے والدین ہیں، اُن کے ساتھ بچّوں کی قربت کیوں پیدا نہ ہو؟ ؟ آپ اپنے والدین پہ اپنے بچّوں کا حق جتانا درست سمجھتی ہیں تو اپنے ساس سسر کیلئے اسی چیز کو کیوں غلط سمجھتی ہیں؟
یا تو بچّے کو مطلقاً کسی سے بھی فرمائش کی اجازت نہ ہو، تب تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن آپ نانا، نانی سے فرمائش کرنے کو مستحسن اور دادا، دادی سے فرمائش کرنے کو غلط قرار دے کے بچّوں کے دلوں میں یہ فرق کیوں پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ ؟ وہ ساس سسر ہوں گے آپ کے، آپ کو اُن سے بہت سارے گلے، شکوے، شکایات ہوں گے۔ مان لیا کہ آپ اپنی سب شکایات میں حق بجانب بھی ہوں گی۔ لیکن کیا آپ اپنے ساس، سسر کے بطورِ دادا، دادی اپنے پوتوں کیلئے محبّت، اُن کی شفقت، اُن کے احساس اور دلی تعلّق سے انکار کر سکتی ہیں۔
استثنائی معاملات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، میں مانتی ہوں کہ کچھ گھروں میں بہو کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں پوتے، پوتیاں بھی پِستے ہیں، لیکن اکثریّتی معاملات میں بہو کے ساتھ جیسے بھی معاملات ہوں، پوتا، پوتی میں دادا، دادی کی جان بستی ہے۔ آپ اپنے معاملات میں اُن کے ساتھ جیسے بھی رہیں۔ کم از کم بچّوں کے اذہان دادا، دادی کیلئے ہر گز آلودہ نہ کیجیئے۔
یہی رویّہ خالہ اور پھوپھی کے باب میں ہمارے ہاں روا رکھا جاتا ہے۔ خالہ کے لئے بچّوں کے دل میں ٹھونس، ٹھونس کے محبّت بھری جاتی ہے اور پھوپھو کے خلاف بُغض اور نفرت۔ حالانکہ میں سمجھتی ہوں کہ بھائی کی اولاد کسی بھی بہن کی آنکھوں کی روشنی اور دل کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جس طرح کاوالہانہ پیار پھوپھیوں کے دل میں بھتیجوں کیلئے ہوتا ہے، شاید اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ کو اپنی نند سے شکایات ہوں گی، گلے ہوں گے، شکوے ہوں گےلیکن بچّوں کو پھوپھیوں سے دور مت کریں۔ اِلّا یہ کہ کوئی عاقبت نا اندیش پھوپھی اپنے مزاج کی کجی کی بدولت بچّوں کے سامنے خود اپنے آپ کو expose کر دے۔
کسی بھی بچّے کی زندگی میں ننھیالی رشتے ہوں یا ددھیالی، ہر ایک کی اپنی جگہ، اپنی اہمیّت اور اپنی خوبصورتی ہے۔ آپ اپنے دلی جذبات، کسی وقت کے دُکھے ہوئے دل، کسی وقت کے غصّے، عناد یا گِلے شکوے کی بدولت بچّوں کو اپنے پیاروں سے دور نہ کیجئیے۔ بچّوں کے قریبی رشتوں کو میکے اور سُسرالی رشتوں میں تقسیم نہ کریں۔ بچّوں کو اُن کے حصّے کی محبّتوں، شفقتوں اور چاہتوں سے محروم نہ کیجیئے۔ اپنے گِلے، شکوے، غصّہ، عناد جو کُچھ بھی ہے، اُسے اپنی ذات تک محدود رکھیئے۔
بچّوں کو ہر رشتے کا احترام، ہر ایک سے محبّت اور ہر ایک کا احساس سکھائیے۔ بدلے میں ربِّ کائنات آپ کے بچّوں کے دل میں آپ کیلئے وہی محبّت، وہی احترام اور وہی احساس پیدا فرما دے گا۔