Awam Aur Ashrafia Ke Darmiyan Farq
عوام اور اشرافیہ کے درمیان فرق
پرسوں اپنی بیٹیوں کو اپنے قریبی تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے کے جانا پڑا، دانتوں کے حوالے سے چیک اپ کروانا تھا۔ صبح بچے سکول چلے گئے، واپس آ کے، نہا دھو کے، کپڑے تبدیل کرتے، ہمیں گھر سے نکلتے ایک بج گیا تقریباً۔ ہسپتال گھر سے خاصا قریب ہے تو پریشانی نہیں تھی کہ پہنچنے سے پہلے ڈاکٹر اُٹھ جائیں گے۔ خیر، ہم لوگ ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا تو ابھی slip نہیں بن سکتی، تھوڑا انتظار کریں۔
ہم انتظار گاہ میں بیٹھ گئے، پانچ منٹ بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ بجلی چلی گئی۔ چلو! ایک اور مسئلہ، اللّٰہ اللّٰہ کر کے پانچ سات منٹ بعد بجلی بحال ہوئی، اب پرچی بنوانے گئی تو پتہ چلا کہ بجلی آنے کے بعد دس سے پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں سسٹم بحال ہونے میں۔ دوبارہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ بجلی پھر سے غائب ہو گئی۔ یاخدا! اب کیا کریں، پھر انتظار؟ کاؤنٹر پہ گئی اور اُن سے کہا کہ ڈاکٹرز موجود ہیں، آپ دستی پرچی بنا دیں، لیکن اُن کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔
پھر بجلی کا رابطہ بحال ہوا اور چند منٹوں بعد بجلی پھر غائب۔ اب کے بجلی کا کنکشن بحال ہونے پہ عملے نے پرچی بنانے سے انکار کر دیا کہ اب چھٹّی کا وقت ہو گیا ہے اور یوں ہم بغیر ڈاکٹر کو دکھائے گھر لوٹ آئے۔ اب پہلی بات تو یہ کہ میرے بچّوں کا خدانخواستہ کوئی فوری حل کا متقاضی، تکلیف دہ مسئلہ نہیں تھا اور دوسری یہ کہ الحمدُللّٰہ میں بوقتِ ضرورت سہولت سے پرائیویٹ ہسپتال بھی بچّوں کو لے جا سکتی ہوں۔
لیکن اگر میری جگہ کوئی ایسا مریض ہوتا، جس کی تکلیف فوری حل کی متقاضی اور بہت تکلیف دہ ہوتی اور وہ پرائیویٹ ہسپتال بھی لیجانے کی سکت نہ رکھتا ہوتا تو سوچئیے اِس بجلی کے آنے جانے، سسٹم کے انقطاع اور بحالی کی مشق میں، اُس مریض پہ اور اُس کے لواحقین پہ کیا گزرتی؟
وہاں بیٹھ کے مسلسل یہی ذہن میں گردش کرتا رہا کہ واپڈا کا ہر ملازم، پی ایم، سی ایمز، وزراء، مشیران، ججز، جرنیل ہی ہمارے ملک کا "پسا ہوا طبقہ" ہیں شاید، جنہیں بجلی سے لے کر پٹرول تک مفت فراہم کیا جاتا ہے، لیکن عوام کیلئے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک کو بلاتعطّل بجلی فراہم کرنا کہیں کسی کی ترجیحات میں تو کیا شامل ہوتا، اُنہیں اُس تکلیف کا ادراک تک نہیں جو عوام اِس صورتحال میں جھیلتی ہے۔
کل پرسوں سے ہماری دنیا کی بدترین کارکردگی کی حامل عدلیہ کے معزز چیف جسٹس صاحب اور دیگر جج صاحبان کی تنخواہیں اور مراعات وائرل ہیں، دیکھا جا سکتا ہے کہ اُن کے مشاہرے لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہیں۔ کروڑوں روپے مشاہرے کے باوجود اُنہیں لاکھوں روپے پٹرول اور بجلی کی مد میں دئیے جا رہے ہیں۔ جبکہ کل مریم اورنگزیب صاحبہ چالیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو دو ہزار کی خوشخبری یوں سُنا رہی تھیں کہ جیسے اپنے باپ کے مال میں سے دو دو لاکھ ہر غریب کو دینے جا رہی ہیں۔
یہ فرق ہے ہماری عوام اور اشرافیہ کے درمیان اور یہ فرق کبھی مٹتا نظر نہیں آ رہا۔ اشرافیہ کی مراعات، سی ایم ہاؤسز، پی ایم ہاؤسز کے اللّے تللّے، اِن بے حسوں کی سیکیورٹی پہ کروڑ ہاء روپے، غیر ضروری اور پوری پوری کابینہ سمیت غیر ملکی دورے، سرکاری حج اور عمرے، مفت پٹرول، گاڑیاں اور بجلی، اِن سب پہ پابندی لگے گی تو ہی خزانے پہ بوجھ کم ہو گا اور شاید معیشت کا رکا پہیّہ دوبارہ سے چل پڑنے کی کوئی صورت نظر آئے۔
ورنہ عوام کا خون چوس چوس کے بھرے جانے والے خزانے کو جب تک یہ جونکیں چمٹی رہیں گی، تب تک جتنا مرضی رہا سہا خون نچوڑ لیں، اِس سو چھید والی جھولی میں یہی بے برکتی، یہی قرضوں کا بوجھ قائم رہے گا اور یہی رونا دھونا عوام کا مقدّر رہے گا۔