Almi Youm e Khawateen Mubarak
عالمی یومِ خواتین مُبارک
عالمی یومِ خواتین ہے، کل کے ایک لعین کے گھٹیا ترین فعل نے اِس دن کو عملاً "یومِ دُختر" بنا ڈالا کہ ہر وال پہ بلا تخصیصِ صنف، ہر ماں اورہر باپ نے اپنی چاند ستاروں سی چمکتی بیٹیوں کی خوبصورت تصاویر، بہترین الفاظ کے ساتھ شئیر کر رکھّی ہیں۔ دلی خوشی ہو رہی ہے ہر سمت بیٹیوں کی مُحبّت کے گیت گُنگُناتے والدین بالعموم اور باپ بالخصوص بہت ہی پیارے اور اپنے اپنے لگے۔
میرا شُمار بھی اُنہی خوش قسمت بیٹیوں میں ہوتا ہے، جنہیں بہت بچپن سے اپنے والدین کی بالعموم اور ابّو جی کی خصوصی محبّت اور شفقت ملی۔ تو مُجھے بیٹیوں کے لاڈ اُٹھاتے، اُن کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے، اُن پہ محبّت اور شفقت لُٹاتے باپ ہی دراصل باپ لگتے ہیں۔ اللہ پاک ہر بیٹی کے سر پہ باپ کا پُرشفقت سایہ سلامت رکھّے۔ اور ہمارے ابّو جی کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے۔
عالمی یومِ خواتین کے آج کی عورت مارچ کا ایجنڈا تو بہت معقول تھا، ابھی تک کہیں پہ عورت مارچ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دی جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا واقعتاً یہ مارچ اپنے ایجنڈا پہ ہی مرتکز رہا یا حسبِ سابق گُزشتہ سات، آٹھ دِنوں سے "میرا جسم، میری مرضی" کی جُگالی کرتی خواتین کے ایجنڈا کو ہی کسی نئے انداز سے پروموٹ کرنے میں ہی آج کا دِن گُزر گیا۔ خیر، یہ تو طے ہے کہ نچلے طبقے کی عورت، جو حقیقتاً مسائل کا شکار ہے، اُن کی حالتِ زار میں تو اِن مارچز سے اور ہمارے لکھنے سے سرِ مُو فرق نہیں پڑنے والا کہ اُن کے مسائل کا حل صرف اور صرف غُربت اور جہالت کے خاتمے سے ہی مُمکن ہے۔
اور غُربت اور جہالت کا خاتمہ ہمارے یہاں عملاً ہوتا دِکھائی نہیں دیتا۔ اپر کلاس کی خواتین بھی مال کی فراوانی کی بدولت، مرد حضرات میں پیدا ہونے والی جُملہ خرابیوں کا شکار ہوتی ہیں (اِلّا ماشاءاللہ)۔ دوسرا سب سے بڑا استحصال کا سامنا اپر کلاس کی خواتین کو اُنہیں باپ کی لمبی چوڑی جائیداد سے محرومی کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اپر کلاس کی خواتین خود غریب خواتین کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بطورِ ملازمہ بھرتی کرنا اور اُن بچیوں کے ساتھ بدسلوکی بلکہ بہت دفعہ جان سے مار دینے تک کے واقعات اونچے گھرانوں سے دیکھنے، سُننے کو ملتے ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ یہ مسائل یومِ خواتین منانے سے حل ہو جائیں گے تو اِس کا بھی امکان نظر نہیں آتا۔ ہاں۔ یہ اُمّید کی جا سکتی ہے کہ اِس طرح کی سرگرمیوں سے مڈل کلاس کی خواتین کے مسائل کسی نہ کسی حد تک شاید کم ہو جائیں، لیکن یہ حقیقت بھی شاید آپ سب تسلیم کریں گے کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے مِڈل کلاس خواتین مذکورہ بالا دونوں طبقات کی نِسبت آج بھی بہتر حالت میں ہیں۔ مڈل کلاس گھرانوں میں بیٹیوں کو حتّی المقدور اچھّی پرورش اور تعلیم و تربیّت کے مواقع بھی میسّر ہیں۔ یہ خواتین ہر شُعبہء زندگی میں آگے بڑھتی بھی نظر آتی ہیں۔
مڈل کلاس طبقے کی خواتین کے آدھے سے زیادہ مسائل behaviourکے مسائل پہ مبنی ہیں۔ جس دِن ہم خواتین کے طبقے سے دوہرا معیار اور مُنافقت ختم ہو گئی، ہمارے اندر sypmpathy اور empathyکے جذبات پروان چڑھ گئے، اُس دِن کم از کم خانگی سطح پہ تقریباً تمام ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔ بہت سارے مسائل بیٹوں کی درست سمت میں تربیّت کے ذریعے بھی حل کئے جا سکتے ہیں۔ قانون سازی اور قوانین پہ سختی سے عملدرآمد بھی بہت سارے مسائل کا حل ہو سکتا ہے۔ ورک پلیس پہ قواعد و ضوابط کے اطلاق سے بھی ورکنگ لیڈی کو سہولت مہیّا کی جا سکتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہماری اِس نوع کی کوئی بھی سرگرمی اِس سطح پہ تبدیلی لانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ بہرحال اِس دِن کی نتائج کے اعتبار سے اہمیّت سے خاصی مایوسی کے باوجود بھی سبھی خواتین کو عالمِی یومِ خواتین مُبارک۔ کہ مسائل پہ صرف بات شروع ہونا بھی شاید کسی مثبت تبدیلی کاپیش خیمہ ثابت ہو جائے، بشرطیکہ ایک خاص طبقہ، اپنے مخصوص اور مذموم ایجنڈا کی تکمیل کیلئے اِس دِن کو ہائی جیک نہ کر لے۔