Adal o Insaf
عدل و انصاف
آج کُچھ بات ہو جائے اپنے بزرگوں، بھائیوں اور بیٹوں سے، سورةُالنّساء کی تیسری آیت سے زرا سا آگے سفر کرتے ہیں۔"نکاح کر لو تم (ان کے علاوہ) اُن سے جو پسند آئیں تُم کو عورتیں، دو دو، تین تین، چار چار۔"یہاں تک کی آدھی اُدھوری آیہء کریمہ ہمارے سماج میں خوب خوب مقبول ہے۔ ہمارے اُن مردوں تک کو ،جنہوں نے کبھی کسی تعلیمی ادارے کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی، وہ بھی یقیناً جانتے ہوں گے کہ اُنہیں اِسلام کی رو سے چار شادیوں کا حق ہے۔لیکن یہ آیہء کریمہ ختم کُچھ یوں ہوتی ہے کہ،" اگر خوف ہو تُم کو یہ کہ نہ عدل کر سکو گے تو بس ایک (سے نکاح کرو)، یہ زیادہ قریب ہے کہ بچ جاوء تُم ناانصافی سے۔"
اِس آیت کے اختتام پہ ربِّ کائنات خود اِرشاد فرما رہاہے کہ، اگر تُمہیں خدشہ ہو کہ دو عورتوں کے درمیاں عدل قائم نہیں کر پاؤگے تو ناانصافی میں مُبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ، تُم ایک عورت سے ہی شادی کرو۔ہمارے یہاں اکثر بیویوں کے درمیان "انصاف" کی بات کی جاتی ہے۔ جبکہ قُرآنِ کریم نے جہاں بھی اِس حوالے سے تاکید کی ہے، لفظ "عدل" استعمال ہوا ہے۔
میرے بڑے تایازاد بھائی، مُختار بھائی نے میری تصحیح کی تو میں نے آج تھوڑا اِن الفاظ کے فرق کو پڑھا۔ لفظ "انصاف" نصف سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب آپ سب جانتے ہیں، آدھا، برابر برابر آدھا حصّہ کسی کو دینا انصاف ہے جبکہ عدل ایک نہایت جامع اصطلاح ہے، اِس کا مطلب ہے کسی چیز کو اُس مقام پہ رکھنا، جس کی وہ حقدار ہے۔ قرآنِ کریم نے ہمیشہ لفظ "عدل" اِستعمال کیا ہے، حالانکہ عرب میں لفظ انصاف مستعمل ہے۔
اِس کی ایک مثال یوں سمجھ لیں کہ ،دو روٹیاں ایک مرد اور ایک بچّے میں تقسیم کرنی ہوں تو انصاف کا تقاضہ یہ ہو گا کہ دونوں کو ایک ایک روٹی دے دی جائے، لیکن عدل یہ ہے کہ بچّے کو اُس کی ضرورت کے مُطابق روٹی دی جائے اور مرد کو اُس کی ضرورت کے مُطابق، یہ عدل ہے۔یعنی ،اگر پہلی بیوی چار یا پانچ بچّوں کی ماں ہے اور دوسری بیوی کی کوئی اولاد نہیں ہے یا ایک یا دو بچّے ہیں، تو اُن دونوں کی ضروریات اُن کی فیملیز کے مُطابق پوری کی جائیں اور میری ناقص فہم کے مُطابق فیصلہ سازی و دیگر امور میں لازماً اُسی بیوی کی اہمیّت زیادہ ہو گی، جس نے زندگی کے ابتدائی مُشکل سال آپ کے ساتھ struggleمیں گُزارے۔
ہمارے یہاں عملاً اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ مرد کو اُدھیڑ عمری میں نوجوان بیوی مِل جائے تو وہ جس نے struggleکے فیز میں اپنا تن، من مار کے اُس کے مکان کو گھر بنایا ہوتا ہے، خاندان میں مُقام بنانے کیلئے ہر ایک کے مزاج کی تلخی کو جھیلا ہوتا ہے، اُسے اوّلاً تو دُلہن بی بی آتے ہی گھر سے بے دخل کرنے کے چکروں میں ہوتی ہیں یا اگر گھر سے نکالیں نہ بھی تو اُسے ذہنی، اعصابی اور مالی ہر لحاظ سے ہر مُمکن استحصال سے دوچار کیا جاتا ہے۔ اور اِس طرح کے معاملات بہت سے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ ایسے میں کہاں گیا عدل اور کہاں گیا خوفِ خُدا؟ اور خواتین کے اندر دوسری شادی کے حوالے سے سخت ترین ردِّعمل اور عدم تحفُّظ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
اِسی سورت میں آگے، آیت نمبر 129 میں ربِّ کائنات نے مردوں کو مُخاطب کرکے بالکل واضح واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ"اور نہیں قُدرت رکھتے تُم اِس بات کی کہ عدل کر سکو بیویوں کے درمیان، خواہ تُم کتنا ہی چاہو، لہٰذا جُھک نہ جاوء (کسی ایک طرف) پوری طرح جُھکنا کہ چھوڑ دو دوسری بیویوں کو ادھر لٹکتا اور اگر درست کر لو تُم (اپنا طرزِ عمل) اور ڈرتے رہو اللہ سے، تو بےشک اللہ تعالیٰ بہت مُعاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔"
اور ہمارے روز مرّہ مُشاہدے نے یہ ارشادِ ربّانی تقریباً ہمیشہ ہی درست ثابت کیا ہے۔میں ایک عورت ہونے کے باوجود، بالکل قرآنِ پاک کی اِس آیہء کریمہ پہ مکمّل ایمان رکھتی ہوں کہ مرد بیک وقت چار عورتوں سے شادی کر سکتا ہے، اور یہی گُزشتہ پوسٹ میں لکھّا تھا کہ مرد کو اللہ پاک نے اجازت دی ہے، اِس لئے دوسری شادی کرنے کو گُناہ ہرگِز نہیں سمجھنا چاہیئے۔ لیکن پہلی بات تو یہ کہ یہ محض "اجازت" ہے، حکم نہیں ہے، نہ ہی "فرض" ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ اجازت عدل کے ساتھ مشروط ہے اور تیسرے یہ کہ، ربِّ کائنات نے خود فرما دیا ہے کہ تُم جتنا بھی چاہو، عدل قائم نہیں کر سکتے، تو میرا خیال ہے کہ کوئی بھی مرد جو دِل میں خوفِ خُدا رکھتا ہے، دوسری شادی کا ارادہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا ضرور۔
قرآنِ کریم میں اور احادیثِ مُبارکہ میں بار بار بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ بار بار، اور دو بیویوں کے ساتھ عدل کا مُعاملہ نہ کرنے والا ایک مُستند حدیث شریف کی رو سے بروزِ حشر اِس طرح اُٹھایا جائے گا کہ، اُس کا آدھا دھڑ مفلوج ہو گا۔ دوسری شادی کے شوقین حضرات ،اِن آیاتِ بیّنات اور احادیثِ مُبارکہ کو ذہن میں رکھّیں اور سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں کہ، اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں؟