Abu Ji Ke Bad Pehle Eid
ابّو جی کے بعد پہلی عید
کسی بہت پیارے کا ہمیشہ کےلئے بچھڑ جانا کیسا احساس ہوتا ہے؟ آپ سب یقیناً کسی نہ کسی رشتے کے حوالے سے اِس کربِ عظیم سے گُزرے ہوں گے کہ ہر ذی نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہی چکھنا ہے۔ ہمارے بھی بہت سے پیارے اِس دارِ فانی سے کوچ کر کے راہیء مُلکِ عدم ہو چُکے، جن میں سے ہر ایک کی موت کا ایک چرکہ جیسے کلیجے پہ آج بھی محسوس ہوتا ہے۔
لیکن جو ابّو جی کی جُدائی نے کلیجہ چھلنی کیا، یہ اپنی نوعیّت کا بالکل ہی الگ احساس ہے۔ جس سے ہم چار، ساڑھے چار ماہ گُزرنے کے باوجود ہر روز گُزرتے ہیں۔ یونہی بیٹھے بٹھائے کوئی بات یاد آ جاتی ہے، اپنی ہی کوئی اضطراری حرکت ایکدم جنجھوڑ دیتی ہے کہ بالکل یہی تو ابّو جی کا انداز تھا، بہن بھائی مل کے بیٹھے ہوں تو کسی نہ کسی کی زبان سے کُچھ ایسا پھسل جاتا ہے کہ دِل جیسے مُٹّھی میں آ جاتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
کبھی وجیہہ یا طلحہ ابّو جی کی لکھّی کوئی نعت گُنگُنانے لگتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھر آتی ہیں اور اُن کے حلق۔ کوئی خوشی کا موقع، کوئی تہوار خاص طور پہ دِل چیر دیتا ہے۔ جب ایک ایک پل، ابّو جی کے ساتھ بِتائے خوشی کے لمحات میں ابّو جی کی محبّت، اُن کا لمس، اُن کی یادیں اور اُن کی باتیں یاد آتی ہیں تو دِل پہ قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
آج کل بھی اِنہی کیفیّات سے گُزر رہے ہیں کہ ابّو جی کے بعد پہلی عید ہے اور ہم سب ایک بھائی کی فیملی کے علاوہ، اکٹّھے ہو چُکے ہیں کہ وسیم کی فیملی امّی جی کے پاس آ گئی ہے۔ باقی تو ہم سب اِدھر ہی ہوتے ہیں۔ دِل میں چاہے ہم جس قدر تکلیف لئے ہوئے ہوں، ہم اپنے پروردگار کی رضا میں راضی ہیں۔ جب اُس نے حُکم دے دیا کہ دُنیا سے جانیوالا آپ کا کتنا بھی قریبی کیوں نہ ہو، سوگ صرف تین دِن کا ہے، صرف بیوہ کا سوگ یعنی عدّت چار ماہ اور دس دِن ہے۔
اگر امّی جی عدّت میں ہوتیں، تب ہم یقیناً اُن کے ساتھ ہی ہوتے اور عید نہ مناتے لیکن اب ہم رِستے ہوئے دِلوں کے ساتھ ہی سہی، عید منا رہے ہیں۔ بچّوں کےلئے نئے کپڑوں کی خریداری کی ہے، اپنے لئے بھی۔ عید کےلئے اپنے لئے کوئی ڈھنگ کا نیا سوٹ سلوانے کی خواہش ہی دِل میں نہیں جاگی، لیکن یقیناً صاف سُتھری حالت میں کسی بہتر سوٹ میں ہی عید گُزرے گی۔
امّی جی نے ہمارے بار بار منع کرنے کے باوجود ہم تینوں بیٹیوں اور چاروں بہوؤں کو نئے کپڑے لے کے دئیے ہیں۔ اپنی عدّت کے اختتام کے بعد، خود بازار جا کے لے کے آئیں کہ تُمہارے ابّو ہم سب کےلئے بہت کُچھ چھوڑ گئے ہیں، تو جیسے اُن کی زندگی میں بیٹیاں اور بہوئیں ہمیشہ مقدّم رہیں، اُن کے بعد بھی تم سب کا حق ہے۔ یہ سب بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
نیّر تاباں کی وال پہ میری ایک قاریہ نورِ ایمان نے کہا کہ جو لوگ اپنے کسی پیارے کے بعد خوشی نہیں مناتے، اُن کےلئے کُچھ لکھئیے۔ میں نےتبصرہ کیا کہ بہن اُن کے دِل پہ جو بیتتی ہے وہ بس وہی سمجھ سکتے ہیں تو ایک اور خاتون نے بتایا کہ اِس معاملے میں کُچھ لوگ حد سے گُزرے ہوئے ہیں۔ فوتگی کو تین تین سال گُزر جاتے ہیں لیکن اِن کے گھر صفِ ماتم جیسے بچھی ہی رہتی ہے۔ نہ خود خوشی مناتے ہیں، نہ اپنے اطراف میں کسی کو خوش ہونے دیتے ہیں۔
حالانکہ دیکھا جائے تو نظامِ قُدرت تو جنابِ رسالت مآبؐ کی رحلت کے بعد بھی نہیں رُکا نہ ہی بدلا۔ جہاں دِل میں غم کی شدّت اپنی جگہ قائم رہتی ہے، وہیں اُن کے غم کو دِل میں زندہ رکھ کے، اُن کی یادوں میں تڑپتے ہی سہی، خوشیاں یا تہوار منانا کوئی عیب کی بات نہیں۔ بلکہ یہ عین اِسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اتنے بڑے غم کے بعد بھی نہ ہم سب نے کھانا، پینا چھوڑا، نہ سونا جاگنا یا ہنسنا بولنا۔
تو کسی خوشی کے موقع پہ ہم اِسی غم کے ساتھ اُس موقعے کے تقاضے کیوں نہیں نبھا سکتے؟ جہاں ہم خود کھاتے پیتے ہیں، وہیں گھر پہ عید والے دِن آئے مہمانوں کو کیوں کھانا نہیں کھلا سکتے؟ عرض یہ ہے کہ اِسلام دینِ فطرت ہے اور اِس پہ عمل پیرا ہونے میں ہی خیر اور برکت ہے۔ جاتے جاتے ابّو جی کی مغفرت اور ہمارے دِلوں کے سکون کےلئے دُعا کر دیجئیے۔ اللّٰہ پاک آپ سب کو عید پہ دِل کی گہرائیوں سے خوش ہونا نصیب فرمائے۔ آمین۔