Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Abbu Ji

Abbu Ji

ابّو جی

آج صبح صبح ڈاکٹر اسد امتیاز صاحب کی تحریر "جنّت کی بزنس کلاس کا مسافر" پڑھی۔ رمضان شریف کی آمد آمد ہے اور ابّو جی کے بعد یہ پہلا رمضان شریف ہے، تو دِل کی حالت ویسے ہی بہت عجیب ہو رہی ہے۔ اُس پہ مُستزاد یہ تحریر پڑھ لی اور آج صبح سے میرے پردہء تخیّل پہ ابّو جی کی بیماری کے چار سال گردش کر رہے ہیں۔

ہم سب بہن بھائی ابّو جی کے ساتھ حد سے زیادہ قُربت والا تعلُّق رکھتے تھے، ویسے تو ہر ماں باپ کی اولادکے ساتھ قُربت ہوتی ہی ہے، لیکن ابّو جی کی بات ہی کُچھ اور تھی۔ ہمارے لئے ابّو جی کے کینسر میں مُبتلا ہو جانے کی خبر کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ ابھی تو ابّو جی نے شدّید مصروف زندگی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سُکھ کا سانس لینا تھا، ابھی تو ہم سب نے ابّو جی کے ساتھ خووووب سارا فُرصت کا وقت گُزارنا تھا۔ ابھی تو میں نے ابّو جی سے قرآنِ کریم کا ترجُمہ اور تفسیر پڑھنی تھی۔

ابھی تو ابّو جی نے اپنی نامکمّل کتابوں کو مکمّل کرنا تھا۔ ابھی تو ابّوجی نے مزید علمی اور تحقیقی کام کرنا تھا۔ ابھی تو یمارے وہم و گُمان کے کسی دور دراز گوشے میں بھی ابّو جی کی رحلت نہیں تھی۔ لیکن یہ موذی مرض ہمارے گھر میں داخل ہونا مشیّتِ ایزدی تھا، سو ابّو جی کو چوتھی سٹیج کا کینسر تشخیص ہو گیا۔ ہم سب شدّید صدمے کی کیفیّت میں تھے کہ ڈاکٹرز ابّو جی کی بہتری کی کوئی اُمّید نہیں دلا رہے تھے۔ ہمارے دِن رات روتے ہوئے گُزر رہے تھے لیکن قسم بُخدا! میں نے ابّو جی کو ایک لمحے کیلئے پریشان نہیں دیکھا۔

موت کو سامنے دیکھ کے اچھّے اچھّوں کی گھِگھّی بندھ جاتی ہے۔ ابّو جی نے ایسے صبر اور ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا کہ دیکھنے والے صبرِ ایّوبی کو یاد کرتے تھے۔ شروع کے بہت مُشکل سال کے بعد ابّو جی کو اللّٰہ پاک نے واپس زندگی عطا کی۔ ابّو جی کا وزن بھی بڑھ گیا، اِن صحت کے ڈیڑھ دو سالوں میں بھی طبیعت اکثر ایک دم خراب ہو جاتی۔ لیکن کبھی کسی نے ابّو جی کے مُنہ سے اُف کالفظ نہیں سُنا، کبھی بھی۔ شروع کے ایک سال میں سے تقریباً سات آٹھ ماہ تو ابّو جی کو بُخار نےہی نہیں چھوڑا۔

پندرہ سے بیس گھنٹے بُخار کی وجہ سے غنودگی میں رہتے، لیکن آفرین ہے ابّو جی کی ہمّت کے کہ جس وقت آنکھ کُھلتی، جو نماز مل جاتی، وہ نماز خود اُٹھ کے ادا کرتے اور جس دِن صبح کے وقت ہوش ہوتا، ہم سب کے نہ نہ کرتے اُس دن جامعہ چلے جاتے۔ ابّو جی کے جسم پہ دو گِلٹیاں تھیں، ایک گردن کے پیچھے اور ایک دائیں ٹانگ پہ مثانے کے قر یب خاصی نیچے کر کے تھی۔ ہمیں تو گردن والی گِلٹی ہی دِکھتی تھی۔ ایک دِن میں ابّو جی کی ٹانگیں دبا رہی تھی اور میرا ہاتھ اُس گلٹی پہ پڑ گیا۔

میں کیا بتاؤں کہ وہ گلٹی گردن والی گلٹی سے کم و بیش چار گُنا بڑی تھی اور یقیناً بہت تکلیف دہ بھی۔ لیکن ہم نے کبھی ابّو جی سے اُس کی تکلیف کے بارے میں ایک لفظ نہیں سُنا۔ آخری سال ابّو جی کو ہرنیا کی تکلیف بھی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی نہایت تکلیف دہ تھی۔ لیکن ابّو جی نے کبھی اُف تک نہیں کیا۔ اور آخری سال 2021ء تو مسلسل تکلیف میں گُزرا، ابّو جی کا کھانا پینا بالکل ہی چھُوٹ گیا۔ پانی بھی پیتے تو اُس کی گھونٹ سینے پہ اٹک جاتی۔ اُس تکلیف کی وجہ سے سارا سارا دِن کُچھ بھی کھائے پئے بغیر گُزار دیتے۔

ہم سب شدّید پریشان ہوتے لیکن امّی جی کی پریشانی حد سے سوا تھی۔ بار بار ابّو جی کو کہتیں کہ کُچھ نہ کُچھ لے لیں۔ لیکن ابّو جی انکار کر دیتے۔ کبھی چڑ جاتے تو کہتے نسیم! تُم دیکھ نہیں رہیں کہ ربِّ کائنات نے اب مُجھ سے یہ نعمتیں چھین لی ہیں؟ جب تک اُس کی مشیّت میں تھا، میں سب کھاتا پیتا تھا، میں اپنے نصیب کا رزق کھا چُکا ہوں۔ میری امّی ویسے تو بہت حوصلے اور صبر والی خاتون ہیں۔ ابّو جی کی بیماری کا وقت جس حوصلے سے امّی جی نے گُزارا، سوچنا بھی مُشکل ہے۔

لیکن ایک دِن ابّو جی سے کہہ بیٹھیں کہ مُجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کے ساتھ یہ کیوں ہوا ہے؟ آپ نے تو ساری زندگی اللّٰہ اور اُس کے رسول ﷺکے مشن پہ گُزاری ہے، کبھی کسی کا حق نہیں کھایا، ابّو جی بولے! نسیم: میں ایک عالم ہوں لیکن دُنیادار عالمِ دین، میں نے دین کے ساتھ دُنیا بھی خوب کمائی اور دُنیاداری کے معاملات میں بھی مصروف رہا تو یہ دُنیا کی میل کُچیل بھی تو ربِّ کائنات نے دھونی تھی۔

یہ چارسال ہمارے گھر میں تیمارداروں کا تانتا بندھا رہتا، صبح سے رات گئے تک، بعض اوقات خود تکلیف میں ہوتے اور لوگوں کے آپس میں باتیں کرنے سے بہت تنگ بھی ہو جاتے، لیکن کبھی ماتھے پہ شکن نہیں ڈالی۔ ہم سب بھی سمجھتے تھے کہ سبھی ابّو جی کیلئے دِل میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے اُنہیں دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تصویر ابّو جی کے گُزشتہ اور آخری رمضانُ المبارک کی ہے۔ اسلام آباد وسیم (مُجھ سے چھوٹے بھائی) کے گھر تھے، وہاں بھی تیمارداروں کی یہاں جیسی ہی بھیڑ تھی۔

اِس تصویر میں ابّو جی اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، اُن دِنوں تکلیف اپنے عروج پہ تھی۔ لیکن کتنی ہی دیر مُنیر انکل اور اُن کے بھائیوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں قہقہے لگاتے رہے۔ آخری ایک دو ہفتوں میں جب کینسر ہڈیوں تک کو کھا گیا تھا اور اُنہیں اُٹھاتے بٹھاتے بھی ہڈیاں دُکھتیں تب کوئی سسکی ابّو جی کے مُنہ سے بےساختہ نکلتی لیکن تکلیف کا اظہار تب بھی نہیں کیا۔ جو کوئی حال پوچھتا، ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا کہ الحمدُللّٰہ، شُکر ہے اُس کی ذات کا۔ اللّٰہ پاک ابّو جی کے صبرِ عظیم کی بدولت اُنہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے اور اُن کی قبر انور پہ کروڑررہاء رحمتوں کا نزول فرمائے۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez