1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rabiah Fatima Bukhari/
  4. Abbu Ji Ki Aik Adat

Abbu Ji Ki Aik Adat

ابّو جی کی ایک عادت

ہر وہ شخص جس نے کسی بہت اپنے کو کھو دیا ہو، خاص طور پہ والدین میں سے کسی کو، وہ سمجھ ہی سکتا ہے کہ انہیں"یاد کرنا" نہیں پڑتا، ہر لمحہ، ہر ساعت، ہر گھڑی جیسے سانسیں چلتی ہیں، جیسے دل ایک خودکار طریقے سے دھڑکتا رہتا ہے، بالکل ویسے ہی، ہر لمحہ ان کی یاد دل و دماغ میں بسیرا کئے رہتی ہے۔ بس اس یاد کی شدّت کا احساس بدلتا رہتا ہے۔

کبھی یہ شدّت اس قدر ہوتی ہے کہ بےبسی کے احساس سے دل پھٹنے لگتا ہے اور کبھی کسی یاد پہ چہروں پہ مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی دل بھی جیسے مٹھّی میں آیا ہوتا ہے۔ ہمارا بھی ابّو جی کے بعد یہی حال ہے۔ کوئی پل ان کی یاد سے غافل نہیں گزرتا۔ لیکن کوئی خوشی کا لمحہ ہو یا تکلیف کا مرحلہ، یہ دونوں مراحل خاص طور پہ دل پہ سخت بھاری ہوتے ہیں۔

آج ابّو جی کی ایک عادت پہ لکھنے بیٹھی ہوں، جو میں نے اپنے اطراف میں مردوں میں بہت کم دیکھی ہے۔ ابّو جی اپنی فیملی میں سے کسی کی بھی بیماری کی حالت کو ایک پل کیلئے گوارا نہیں کرتے تھے۔ امّاں جی (دادی امّاں)، ابو جی کے کسی بیٹے، بیٹی، بہو یا داماد کا سر بھی تپ جاتا تو ابّو جی تڑپ جاتے۔ اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ مریض کو ہسپتال سے دوائی نہ دلا دیتے۔ خود ساتھ چلے جاتے، ورنہ مریض کو کسی نہ کسی طور دوائی کیلئے بھجوا کے ہی دم لیتے۔

اپنے والدین اور اولاد کیلئے تو یہ جذبات ہر ایک کے ہوتے ہی ہیں، کوئی اظہار کر دیتا ہے اور زیادہ تر اظہار نہیں کر پاتے۔ لیکن ابّو جی امّی جی کی تکلیف پہ بھی بالکل ایسے ہی تڑپ جایا کرتے تھے۔ ایک لمحہ امّی جی کو تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ امّی جی نے ابّو جی کے ساتھ بہت مشکل زندگی گزاری۔ ابّو جی نے خود بھی حد سے مصروف زندگی گزاری اور امّی جی کو بھی آخری وقت تک اتنا ہی مصروف رکھّا۔

امّی جی کے صحت کے مسائل بھی ہمیشہ ہی ساتھ ساتھ رہے لیکن ابّو جی حد سے زیادہ خیال رکھتے۔ میّاں بیوی والی روایتی نوک جھونک، لڑائیاں، روٹھنا، منانا سب ساتھ چلتا تھا لیکن امّی جی کی تکلیف پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تھا۔ ابّو جی کے کینسر سے شاید دو، تین سال پہلے امّی جی بستر پہ آ گئیں۔ ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ اللہ جانے اور کیا کیا مسائل تھے کہ امّی جی بالکل ہی بستر سے لگ گئیں۔

ایسے وقت میں، میں نے الّا ماشاءاللہ ہر مرد کو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتے ہی دیکھا ہے، اگر بیوی کی بیماری طوالت اختیار کر جائے کہ سارا گھر الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔ لیکن ابّو جی کو تقریباً روزانہ امّی جی کو ہسپتال لے جانا پڑتا لیکن کبھی ماتھے پہ شکن نہیں آئی۔ بلکہ امّی جی کی بیماری کے دوران ہی ابّو جی نے گاڑی خریدی کہ ایک تو امّی کو ہسپتال لانے لیجانے میں آسانی رہے، دوسرا یہ کہ امّی جی کی خواہش تھی کہ گھر پہ اپنی گاڑی ہو۔

تقریباً ڈیڑھ دو سال بعد اللہ پاک نے امّی جی کو صحت عطا فرمائی لیکن ابّو جی نے کئی بار ہم سب کے سامنے اظہار کیا کہ یہ گاڑی تو میں نے نسیم کی وجہ سے لی تھی، مجھے پتہ تھا کہ اس کی خواہش ہے۔ بیوی کی طویل بیماری میں صبر کے ساتھ وقت گزارنا، اس کے علاج پہ خوش دلی سے رقم خرچ کرنا اور بیماری کے دوران ہی بیوی کی اتنی بڑی خواہش پوری کرنے کا اہتمام کرنا۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔

اللہ پاک ابّو جی کی قبرِ انور کو ویسی ہی راحتوں، آرام اور سکون سے بھر دے، جیسے انہوں نے خود کو ہمارے لئے راحت، آرام اور سکون کا اہتمام کرنے میں ہمیشہ مصروف رکھّا۔ بہت مشکل ہے ہر پل ایک احساسِ زیاں کے ساتھ جینا، لیکن زندگی اسی کا نام ہے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz