Pakistaniat Aur Israeliat
پاکستانیت اور اسرائیلیت
جارج آرویل نے کہا تھا جب سچ کہنا جرم بن جائے، تو جھوٹ حب الوطنی بن جاتا ہے۔ پاکستان اور اسرائیل، یہ دو ریاستیں مذہبی بنیادوں پر بننے کی وجہ سے کافی بدنام زمانہ ہیں۔ دونوں ہی چلنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں پاکستان کو ایٹم بم ٹائم سے ہی بنا کر بیٹھ جانے سے پوری دنیا ہمیں بندر ہاتھ بندوق کا مصداق سمجھ رہی ہے اور اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے پاس ہونے کے بعد لوکل عرب کو ان کی زمینوں کے عوض پیسے دینے کے باوجود بھی اسرائیل اور فلسطین کا معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اس طرح کی باتیں ہمیں کبھی مین سٹریم میڈیا پر پڑھنے کو نہیں ملیں گی معاشرتی علوم کی کتابوں میں بھی صفحات نمبر اور دریاوں کے ناموں کے علاوہ شاذ ہی کوئی بات سچ ہوگی۔
اسرائیل اور پاکستان کے اس تنازعہ کو لے کر ہر کوئی یا تو ایمان پر یا پھر سمجھوتے پر مبنی رائے رکھتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اس پر تفصیل سے تحقیقی کتاب لکھوں جس میں مسئلہ فسلطین میں دونوں فریقین کے دعوے اور دونوں میں سے مضبوط موقف کس کا اور اس مسئلے کا اب حل کیا ہو سکتا ہے؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ترجیحات زیادہ تر عسکریت پسند ہیں ہم گھاس کھا کر بھی لڑائی جھگڑے کی چیزو ں پر سرمایہ پھوکنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم اپنے کسی ہمسائے سے خوش نہیں ہیں چین سے دوستی کا دم بھرتے ہیں مگر خاک برابر فائدہ نہیں۔ غرض ہم نے دنیا بھر کے عسکری معاملات میں دلچسپی لے کر خود کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا نیوزی لینڈ نے کسی ملک کے خلاف حملہ کر دیا یا جنگ میں فلاں کو تعاون کیا۔ وہ چپ کرکے اپنی ایک نُکر میں آباد ہے اور خوش حال ہے۔ لیکن مجھے تو سمجھ نہیں آتا اگراسرائیل مذہب کی بنیاد پر بنا ہے تو کیا پاکستان نہیں!
اسرائیل نے مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کیا ہے مگر مسلمانوں نے یہ جگہ یہاں کے دراصل باشندوں (ہندووں) سے پیار پچکار کے لی تھی! اسرائیل کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ ایک غاصب ریاست ہے لیکن پاکستان کو تو محمد بن قاسم نے یہاں پر آکر خریدا تھا! اسرائیل جنگ اور ظلم کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں موجود اقلیتوں کی حالت وہی ہے جو ہندووں کے سماج میں دلتوں کی ہوتی ہے۔ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے البتہ پاکستان برطانیہ کی جائز اولاد! اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے جبکہ پاکستان کا یہ اعزاز ہے کہ وہ دنیا کے ہر انسانی حقوق کے سروے میں آخری درجات میں ہوتا ہے۔ اسرائیل دہشت گرد ہے کیونکہ اسامہ بن لادن وہاں سے پکڑا گیا تھا۔
اسرائیل صرف یہود کی فلاح کے لئے بنایا گیا ہے مگر پاکستان میں تو خود مسلمان بھی مسلمانوں کے ہاتھوں کافی محفوظ ہیں۔ اسرائیل کو فسلطینی دشمن چاہیے تاکہ قوم متحد رہے اور پاک، بھارت کی باڈر پر نت نئی جھڑپیں اور اس کے بعد پوری دنیا سے دفاع کے نام پر فنڈ اکھٹا کرنا یہ سب کیا ہے؟ اسرائیل کا ہر شہری فوجی ہے اور پاکستان کا ہر فوجی ہی دراصل شہری ہے (باقی تو بس ترانے گانے کے لئے ہیں، یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں) اسرائیل اپنی پارلیمنٹ کی بہت کم نشستیں عربوں کو دیتا ہے مگر پاکستان میں تو اب سول سروس کے فارم میں بھی حلف دینا ضروری ہے کہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ دن لد گئے جب کوئی غیر مسلم ہو کر چیف آف آرمی سٹاف بن سکے، چیف جسٹس سپریم کورٹ بن سکے یا پھر صدر یا وزیر اعظم ہونے کی جسارت کرے اگرچہ وہ ووٹ بھی دو تہائی رکھتا ہو۔ ہم کوئی بات بھی اس ضمن میں سچ بول کر نہیں راضی اس کی بڑی وجہ مذہب شدت پسندوں کا پاکستان میں ہولڈ ہےوہ قرآن سے حوالے نکال نکال کر ثابت کرتے ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کا کسی سے گزارا نہیں ہوسکتا۔ یہی مذہبی طبقہ اسرائیل سے معاملات کو مناسب حد تک بھی درست نہیں ہونے دے رہا۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو اب جبکہ اسرائیل اور حماس وغیرہ کے معاملات طے پا رہے ہیں تو، سڑکوں پر نکل آئے ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل کرو اور کچھ دنوں تک انہیں کوئی بیٹھ کر سمجھائے گا کہ بھائی مسئلہ تو حل ہو چکا تو اعلان کریں گے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ ہم احتجاج کریں گے تو حل ہو جائے گا۔
کسی بھی تبدیلی سے قبل ضروری ہے کہ ہم سننا سیکھیں تاکہ کہنے والوں کو آزادی میسر آئے اور ہم بھی سوچنے سے شغف رکھنے والی قوم بنیں اس وقت تو صورت حال ہی ہے جیسا کہ جارج آرویل نے کہا تھا جب سچ کہنا جرم بن جائے، تو جھوٹ حب الوطنی بن جاتا ہے۔

