Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Akash
  4. Fasad Fi Sabeel Lilah

Fasad Fi Sabeel Lilah

فسادِ فی سبیل اللہ

سرفراز بزمی نے کہا تھا

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

جنگ رک گئی، دونوں جانب سے قیدیوں کا تبادلہ ہورہا ہے، فلسطین اور اسرائیل میں خوشی کی لہر دیکھ کر ساری دنیا اشک بار ہے۔ رہی بات عمارتوں اور سہولیات کی جو اس جنگ کے دوران ہوئی تو پوری دنیا کی نظر ان دو ملکوں پر ہے ہر طرف سے فنڈز آئیں گے اور معاملات جلد ترقی کی جانب چل نکلیں گے۔

مگر اس بیچ پاکستان میں تحریک لبیک کے رہبر سعد رضوی نے حکومت سے مارچ کرنے کی اجازت طلب کی جس کو دائرگی نمبر لگا کر زیر غور لایا گیا اس سے قبل کے این او سی ملتا یہ لوگ ہمیشہ کی طرح سڑکوں پر نکل آئے کہ ہمیں کون روک سکتا ہے۔ ان کو لگ رہا ہے کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے مگر یہ مارچ کے لئے انتظامیہ سے اجازت ضروری ہوتی ہے۔ جیسے اظہارِ رائے ہمارا حق ہے مگر کسی اخبار میں لکھنے کے لئے اس کے ایڈیٹر سے معاملہ کرنا ضروری ہوتا۔ جماعت محض دائرگی نمبر ملنے کو ہی اجازت نامہ سمجھ کر سڑکوں پر نکل آئی ہے یا ویسے ہی کوئی مشہوری کے لئے سٹنٹ کر رہے ہیں۔ پہلے یہ ایک احتجاج کرنے والے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیا جائے مگر کسی نے ان کو کان میں شائد بتایا ہے کہ ان کا مسئلہ حل ہو چکا ہے تو بجائے سب کو اپنے اپنے گھر جانے کا حکم دیتے موقف تبدیلی سی کر لی ہے۔ کہتے ہیں ہم اب اظہار یک جہتی کر رہے فلسطین کے ساتھ۔

اب حکومت نے چونکہ اجازت نہیں دی تھی اس لئے سکیورٹی اداروں نے انہیں یوں سڑکوں پر دندناتے پھرنے سے منع کیا۔ اب احتجاجیوں کو لگا کہ ہم اس بار بھی شان رسالت کے چکر میں ہی نکلے ہیں تو وہی جذبہ جنوں سکیورٹی اداروں کو دکھانے کی کوشش کی۔ ایک روپوٹ کے مطابق تحریک لبیک نے ڈنڈوں سوٹوں، آنسو گیس سے بچنے والے ماسک اور شیشے کی گولیوں کے لئے پہلے فنڈ اکھٹا کیا ہے اور اب یہ سب ہتھیار سکیورٹی اداروں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ تحریک کے تمام ذرائع ابلاغ کو حکومت کی جانب سے بند کر دیا گیا ہے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو میں سعد رضوی نے پوچھا کہ بس ایک ہی سوال ہے کہ گولی کیوں چلائی؟ اس جملے میں مجھے کیوں نکالا، جیسی گونج تھی۔

ان کا یہ احتجاج نما اظہارِ یکجہتی ایسی صورت میں اضافی یا بے معنی سا ہے جبکہ مفتی منیب بھی ان کو اپنی توانائیاں کسی اور موقع کے لئے بچا کے رکھنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ لبیک والے بھول جاتے ہیں کہ ہم نے صرف اظہار یکجہتی کرنا ہے ان کا ہاتھ توہینِ رسالت کے معاملات پر احتجاج کرنے پر سیٹ ہے۔ اس بار ان کو الٹانے کے لئے کوئی کیلوں کی ریڑھی تو نہیں ملی مگر اس با مشق ستم دیگر صورتوں میں جاری ہے ایوانوں میں تو گونج ہے کہ 282 لوگ مرید کے آنے تک مر گئے ہیں اور 1900 سے زائد زخمی ہونے کی بات ہوئی ہے۔ مگر دراصل کتنے مرے اور کتنے اس سبب سے مرنے والے ہیں اس کی کوئی فہرست ابھی تک مرتب کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں کیونکہ سب سے برا اس میں یہ ہوا کہ ہر بار کی طرح اس باربھی ان کے اس جتھاکاریوں کو عکس بند کرنے سے مصدقہ میڈیا کو منع کر دیا گیااس لئے حامد میر جیسے چلا اٹھے ہیں کہ ہمارے ٹی وی پر اسرائیل کی مجلس شوریٰ میں ہونے والی تقریر چل سکتی ہے تو اپنے ملک میں ہونے والے سانحے کا ذکر کیوں نہیں ہو سکتا۔ صحافت کو اپنی راہ نہ دی جائے تو افواہیں اس لاعلمی کے خلا کو بھرتی ہیں۔ اب کوئی کہہ رہا ہے کہ سعد کو تین گولیاں لگ گئی کچھ نے رپورٹ کیا کہ سعد قتل ہو گئے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

انہوں نے اپنے آپ کو ایسی صورت حال میں پھنسا لیا ہے جس میں ایک سپیرا پھنس جاتا ہے جب اس کا سانپ مر جاتا ہے نہ اس کا پھینکنے کو دل کرتا ہے نہ رکھنے کو۔ یہ اس حالت میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ نکلنا نہیں آرہا فورسز کا مدعہ ہے کہ سڑکوں کو رواں رکھا جائے اور امن کی صورت قائم ہو تحریک لبیک والے ہمیشہ سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو اکھٹا کرکے اس میں ہوا بھرتے ہیں اور اس پھولے ہوئے غبارے کولا کر حکومت کے کانوں کے پاس لا کےچھوڑ دیتے ہیں۔ ابھی سعد اور ان کا بھائی انس دونوں منظر سے غائب ہیں اور عوام کا ہجوم بے قائد و بے قاعدہی سڑکوں پر دندناتا پھرتا ہے۔ ان پر دہشت گردی اور ایک ایس ایچ او کے قتل کی واردات کی ذمہ داری بھی عائد ہو رہی ہے۔ بھلا کیا ضرورت تھی ایڑھیاں اٹھا کر پھانسی لینے کی۔

ٹھیک ہے فلسطین کو امن چاہیے تو کیا پاکستان کو امن نہیں چاہیے۔ سرفراز بزمی نےبڑا بر محل کہا ہے۔۔

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail