Blasphemy Gang Aur Justice Sahab Ke Naam Khula Khat
بلاسفیمی گینگ اور جسٹس صاحب کے نام کھلا خط
بنام: محترم سردار اعجاز اسحاق خان
بتاریخ: 27جولائی 2025
بمقام: کولالمپور ملائشیا
تسلیمات
سب سے پہلے تو آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے بڑی دلیری سے کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت کی ورنہ جہاں تک میرے اپنے تجربے کی بات ہے میں ہائی کورٹ سے ہمیشہ مذہبی مقدمات کی بابت مایوس ہوا ہوں۔ میرا اپنا مقدمہ تین بار ہائی کورٹ لاہور میں ضمانت کی بابت تین بار لگا مگر انتہائی بزدلی اور تنگ نظری سے لیا گیا تیسری بار خود کہہ کر ضمانت خارج کرائی کہ ہم سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں۔
آپ کا دیا گیا تمام فیصلہ منظر عام ہے اور میں نے تسلی سے تو کئی بار پڑھا ہے بڑی ہی معقول وجوہات ہیں جن پر اس گینگ کے خلاف تفتیش ضروری ہے۔ لیکن چند نکات ایسے ہیں جن پر مزید غور کی ضرورت تھی جن پر کسی اور کا دھیان نہیں جا رہا آپ سے کسی طرح رابطہ کرنا چاہ رہا ہوں مگر ہو نہیں رہا تھا ابھی تھوڑی سی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ ادارہ بھی آپ کے زیر سایہ چل رہا ہےتو سوچا کہ اسی توسل سے آپ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں اس مدعہ کی بابت ایک اہم کردار اس لئے ہوں کہ میں توہین مذہب کے دو مقدمات بھگت چکا ہوں اور پاکستانی عدالتی نظام اور مزاج سے بخوبی واقف ہوں۔
یہ نیٹ ورک جو جنرل ضیاء کی اسلامائزیشن کے بعد سے زور پکڑتا جا رہا ہے جس کی ابتدا ملک میں مسلمانوں کی تعریف متعین کرنے اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے، پھر جنگوی گروپ کا شیعہ کو کافر قرار دینے کی کاوش ناکامی کی صورت میں ان کے علماء پر حملے اور ان کے ردعمل میں ملک میں مذہبی کشیدگی سے چلتے ہوئے آئیں تو فیض آباد دھرنے میں اپنا لوہا منوانے کے بعد عالمی نامور خبری اداروں نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ آئندہ پاکستان میں صرف سنی طرز کے مسلمان حاکم ہو جائیں گے اور بقیہ طبقات کا جینا مشکل کر دیں گے وہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ملک میں مذہبی عناصر کو پالا گیا تا کہ امریکہ سے ملین آف بونٹیز کمائے جائیں جیسے مشرف نے اپنی کتاب سب سے پہلے پاکستان کے اول ایڈیشن میں اعتراف کیا بعد میں حذف کر دیا گیا۔ اس بات کا تعلق اس بات سے ہے کہ عدلیہ اس معاملے میں بہت ہی بری طرح ناکام ہے۔ جو لوگ عدالت ماورا مذہبی الزامات میں مار دئیے جائیں یا عدالت میں لاکر ان پر مقدمات چلیں دونوں صورت میں ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ عدلیہ نے نہ تو ماورائے عدالت ہونے والے مقتول کے قاتلوں کی کبھی باز پرس کی نہ ہی عدالت میں آنے والے سائل کو ہی سپریم کورٹ سے نیچے کبھی ڈھنگ سے سنا گیا۔
اس کی وجہ ہے اس 295 سی کا بڑے آرام سے اطلاق ہو جانا کریمنل پروسیجر کی دفعہ 196 یہ تقاضا کرتی ہے کہ کوئی بھی پرائیویٹ طور پر کسی کے خلاف یہ مقدمہ درج نہیں کرا سکتا جب تک اس پر وفاقی یا سینٹرل حکومت اس کی اجازت نہ دے 154 میں لکھا ہے کہ اس مقدمہ کی تفتیش ایس پی سے نیچے کوئی نہ کرے تاکہ جھوٹے مقدمات کی روک تھام ہو سکے مگر سچ تو یہ ہے کہ جتنی بھی ایف آئی آر آپ پڑھ لیں ان سب میں ان دونوں ضابطوں کو پریکٹس نہیں کیا گیا۔
اے ایس آئی ہر ایف آئی آر میں لکھتا ہوا ملے گا کہ بادی النظر میں 295 سی پائی جاتی ہے اس لئے مقدمہ درج کرکے رپورٹ ارسال کر رہا ہوں۔ ساری کاروائی تھانے میں 5 پڑھا تھانے دار کرتا ہے ایس پی سے صرف سائن لے لئے جاتے ہیں اور دس سال بعد جب عدالت ایس پی کو طلب کرتی ہے تو پیش ہو کر صرف اتنا کہتا جو روپورٹ میں نے پیش کی ہے وہی میرا بیان ہے۔ ایس پی کو خود نہیں پتہ ہوتا اسے بریف کرکے لایا جاتا ہے۔
اداروں کی نااہلی اور ذاتی تنگ نظری کی وجہ سے شدت پسندی میں پورا ملک جل رہا ہے اس پر ایک سو موٹو کبھی کسی نے نہیں لیا۔
اس قوم نے عمران خان کو قید ہوتے دیکھ لیا جتنا رد عمل اس کی رہائی کے لیے ہوا یہی کچھ ایک بار 295 کی بابت اصلاحات کی بابت ہو سکتا ہے۔ مگر اس پر تسلی سے کام ہونے کی ضرورت ہے۔
اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں توہین مذہب ایک مسئلہ کیسے بنا ہوا ہے۔ اس کے کچھ محرکات ہیں اول تو یہ کہ پاکستان میں میڈیا اور معلومات کے اضافے کے سبب سے دیگر ثقافتوں اور نظریات سے تعامل کے نتیجے میں لوگ خصا نوجوان تبدیل ہو رہے ہیں جس مذہب کی پکڑ پاکستان میں آئندہ کم ہوتی نظر آرہی ہے جس کے سبب سے مولوی اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے اس لئے وہ اپنی ذات کے تقدس کو بچانے کے لئے پیغمبر اسلام کی ذات کو استعمال کر رہا ہے۔ نوجوان کے مذہبی اضطراب کو یہ لوگ کم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں یہ صدی مذہب کی آخری صدی معلوم ہوتی ہے مجھے یورپ سے لوگ ملیں تو حیران ہوتے ہیں کہ آپ کے ہاں اب بھی لوگ مذہب کو مانتے ہیں۔ اس لئے آپ کو بیشتر مقدمات میں مدعی محلے کا مولوی نظرآتا ہے کیونکہ یہ عام محلے دار کی بقا کا مسئلہ کم اور ملا کے شعبہ کی بقا کو مسئلہ زیادہ ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جو بھی کوئی مذہب پر اپنے شکوک کا اظہار کرتا ہے اس پر مقدمہ کرکے علاقے میں ایک مثال قائم کی جاتی ہے کہ سوچنا مت اور پوچھنا تو بالکل بھی مت۔
دوسرا محرک اس کا یہ ہے کہ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ 302 میں سے نکلنا آسان ہے بنسبت 295 کے وہ اداروں کو بڑی آسانی سے ساتھ ملا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں توہین کا الزام لگا کر، اس لئے لوگ ذاتی اور نجی جھگڑوں کا بیر لینے کے لئے اس کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ پہلے ہوتا تھا کہ ایک بازارو عورت کو چند پیسے دے کر زنا کا جھوٹا پرچہ کسی پر کرایا جاتا تھا اس سے اب کچھ نہیں بن پا رہا تو ایسا ہو رہا ہےکہ لوگوں پر مذہبی توہین کا مقدمہ کرنا چونکہ 302 سےآسان ہے کہ اس کے لئے کسی کو مرنا نہیں پڑتا مقدمہ درج کرانے کے لئے۔ ہم نے دیکھا ہے لوگ جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کے لئے اپنی عورتوں کو کہتے ہیں اپنے کپڑے پھاڑ لو اور پھر تھانے لے جاتے ہیں۔ اپنی عورتیں اپنی ناموس ہوتی ہے ہم وہ لوگ ہیں جنہیں دوسروں کی نفرت اپنی اور اپنے مذہب کی ناموس سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اس کی چند مثالیں دینا چاہوں گا جیسے جڑانوالہ نے کسی نے شناختی کارڑ کی کاپی اور فوٹو تک لگا کے کسی مسیح کے نام سے منسوب کرکے توہین آمیز تحریر لکھ کر منظر عام پر رکھ دی تھی جس کے بعد 25 سے زیادہ چرچ جلا دئیے گئے۔
اس کے بعد دوسری مثال میں آپ کو ندیم سیمسن کیس کی دینا چاہوں گا جس میں ملزم نے چاہا کہ اس کے مدعی عبدالحق گوگا جو کہ اس کا پرانا دشمن تھا کو کوئی قتل کر دے اس لئے اس نے اس کے نام پر ایک جعلی اکاونٹ بنا کر اس کی فوٹو لگا کر اس کا نجی نمبر لکھ دیا اور اس آئی ڈی سے توہین امیز مواد شئیر کرنے لگا مدعی نے مقدمہ درج کرا کر ملزم کولاہور سائبر کرائم سیل کی مدد سے اسے گرفتار کیا تھا۔
اور تیسرا محرک اس میں نظر آتا ہے ذہنی نفسیاتی مسائل جس کی وجہ سے لوگ خود کو نبی یا کوئی خاص بندہ من کر پیش کرنے لگتے ہیں نفسیات میں اس بیماری کو شیزوفرنیا کہتے ہیں اس کا علاج بھی اب موجود ہے۔ جیل میں توہین کے مقدمات کے ملزمان کا سروے کی جائے تو ان میں سے زیادہ تر وقوعہ کے وقت ذہنی طور پر درست نہیں تھے۔
اس کے بعد اب جو گروپ نظر آر رہا ہے ان میں سے کچھ کے محرکات مذہبی لذت اور اسی گروپ کے کچھ ممبر نجی طور پر کمانے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں گنوا رہے۔ مگر ان چاروں محرکات کو اگر چارکیٹاگری میں بنائیں تو آزادی رائے کے خلاف مقدمات، نجی بدلے کے لئے مقدمات اور ذہنی مریضوں کے خلاف مقدمات سمیت بلاسفیمی گروپ کی طرف سے کرائے گئے مقدمات۔
یہ تمام چیزیں میں نے بطور ملزم رہ کر جیل میں اخذ کی ہیں اس لئے یہ کسی بھی باہر سے تھوڑی دیر کے لئے آکر انٹریوں کرنے والوں کی روپوٹ سے زیادہ اہم ہے۔
اب بتانا یہ مقصود ہے کہ اسلام آباد میں توجو لوگ گروپ کی صورت میں کام کر رہے ہیں وہ تو آپ نے ننگے کر دئیے اپنے فیصلے میں اسی طرح کا گروپ لاہور میں بھی منظم طور پر کام کر رہا ہے ان میں ایک مشہور وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری جو آسیہ مسیح کے کیس میں بھی وکیل تھا اور اس کے بری ہو جانے کے بعد بھی اس نے نظر ثانی اپیل رکھی تھی۔ لاہور میں ہونے والے ہر توہین مذہب کے مقدمے کو وہ اور اس کا ایک چیلا شہزاد دیکھتے ہیں۔ ان کے پیچھے ختم نبوت موومنٹ، تحریک لبیک اور جمعیت علماء پاکستان جیسی جماعتیں ان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ اگر یہ مذہبی عشق میں یہ کام رضامندی سے رضاکارنہ کر رہے ہوتے تو اور بات تھی یہ لوگ ذہنی مریضوں کو بھی سزا دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں جیسے سجاد ولد یونس کے مقدمے میں دیکھا جا سکتا ہے جسے لاہور سیشن نے بری کیا اور یہ وکلاء جج صاحب کو دھمکیاں دیتے رہے۔
ان کے پاس ایسے لوگوں کی ٹیم ہے جو کسی بھی وقت ہنگامہ آرائی کرنے کو تیار ہیں۔ میری ضمانت کی درخواست مصباح خان صاحبہ کی عدالت ایف آئی اے لاہور میں اس دن فیصلہ کیا جانا تھا ان کو لگ رہا تھا کہ ضمانت ہو جائے گی تو کسی خبطی سے بزرگ کو جس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی اور کچھ چاول شاپر میں باندھے ہوئے ساتھ لئے پھر رہا تھا عدالت میں ہنگامہ آرائی کے لئے بھیج دیا اس نے عدالت میں جا کر نعرے لگائے اور میرا نام لےلے کر قتل کر دینے کی باتیں کی میرے وکیل عرفان جاوید صاحب کو تلاش کرتا رہا کہ اس کو لاٹھی مار سکے ماحول کو ایسا گرما دیا کہ ضمانت خارج کرکے جج صاحبہ نے روسٹرم نے اندر بلا کر وکیل سے کہا اللہ آپ کو جج بنائے تو آپ کو اندازہ ہو کے یہ کتنا مشکل ہے میرے لئے پھر بھی تمہارا ملزم اوپر سے نکل جائے گا۔
یہ خط میں چاہتا ہوں کمیشن کے ارکان تک کسی طرح پہنچ جائے تاکہ ایک ملزم کا تحقیقی نقطہ نظر بھی فیصلہ کرتے وقت ان کے سامنے ہو۔
اب مسائل اور ان کی وجوہات پر بات کرنے کے بعد میں ان کا حل پیش کرنا چاہوں گا۔ کمیشن کو چاہیے کہ مقننہ کو 295 کی بابت ترمیم کی ہدایات جاری کی جائیں اس میں میری تجویز یہ ہے کہ زیادہ تر مقدمات میں مدعی دراصل توہین کرکے ملزم پر ڈالتا ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ مدعی اور ملزم دونوں کو فیصلے تک اندر رہنے کا قانون ہو تو جھوٹے مقدمات میں کمی لائی جا سکے گی۔
اگر ایسا کرنا مناسب نہیں تو سزا کم کر دی جائے تینوں دفعات کی اے بی اور سی سزا وہی کردیں جو ضیاء کی اسلامائزیشن سے قبل اس کی تھی یہ برطانیہ میں رائج ہے۔ ضمناً بتا دوں کہ 2008 سے برطانیہ میں کسی بھی مذہب کے خلاف اظہارِ رائے پر محض مذہبی توہین کی بنیاد پر فوجداری مقدمہ نہیں بنایا جا سکتا۔
اور ہم برطانوی باقیات کو مزید سنگین کئے چلے جا رہے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ میرا یہ خط ضائع نہیں ہوگا۔
ہمیشہ انصاف کا بول بالا ہو اور پاکستان بھی دیگر دنیا کی طرح ایک خوشگوار ملک بنے اسی تمناکے ساتھ
والسلام

