Sirf Panch Minute
صرف پانچ منٹ

خفیہ ایجنسی والوں نے کہا تھا، صرف پانچ منٹ کے لیے ہمارے ساتھ چلیے اور پھر وہ پانچ منٹ پورے نو سال میں کیسے بدلے، ان نو سال میں کیسا کیسا ظلم ڈھایا گیا، کیسا کیسا قہر توڑا گیا، قیدی کو کیسی کیسی اذیت سے گزارا گیا؟ اور قیدی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کا بھائی ایک جماعت سے وابستہ تھا۔ ایسی جماعت، جو حکومت سے برسر پیکار تھی، حالت جنگ میں تھی۔
یہ ایک شامی خاتون پر گزرے واقعات ہیں جنہیں انہوں نے کتابی شکل دی، میمونہ حمزہ نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے، عنوان ہے "صرف پانچ منٹ! "
اس کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جب ریاست جبر پر اتر آتی ہے تو لاقانونیت کی کیسی کیسی داستانیں جنم لیتی ہیں۔
ہبہ الدباغ شام کے شہر حما (Ḥamāh) کی رہنے والی تھیں اور دمشق یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے ایک ہاسٹل میں مقیم تھیں۔ ہبہ کے بھائی پر اخوان المسلمین نامی تنظیم سے وابستگی کا الزام تھا۔ اُس وقت اخوان المسلمین اور شامی حکومت میں تصادم چل رہا تھا جس کے باعث تنظیم سے وابستہ افراد زیر عتاب تھے۔ انہیں پکڑا جا رہا تھا، سزائیں دی جا رہی تھیں۔ ہبہ کا بھائی بھی اسی وجہ سے شام چھوڑ کر اردن جا چکا تھا۔ ہبہ سمجھتی تھیں کہ چوں کہ ان پر ایسا کوئی بھی الزام نہیں تو انہیں کہیں روپوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ انہوں نے معمول کے مطابق اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
دمشق میں گھومتے ہوئے انہیں کچھ دنوں سے یہ محسوس تو ہو رہا تھا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ اسے اپنا وہم سمجھتی تھیں۔ پھر ایک دن انہیں اپنے ہاسٹل کے نیچے بہت سی گاڑیوں کے آنے، رکنے اور دروازے کھلنے کی آوازیں آئیں۔ انہیں لگا کہ اس محلے میں کسی کو پکڑا جائے گا، ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ ان کے ہاسٹل کا دروازہ زور زور سے بجایا گیا۔ پھر خفیہ والے اندر آئے اور انہوں نے ایک نام پکارا۔ ہبہ الدباغ۔
وہ ہبہ کو ہی پکڑنے آئے تھے۔
خفیہ والوں نے کہا، تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا، صرف پانچ منٹ کے لیے اور پھر وہ ہبہ کے ساتھ رہنے والی دو اور لڑکیوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں وہ ہبہ سے پوچھتے رہے، تفتیش کرتے رہے کہ ان کا اخوان المسلمین سے کیا تعلق ہے؟ ان کے علم میں یہ بات تو تھی کہ ہبہ کے بھائی اخوان المسلمین کے ساتھ تھے۔ تو وہ ان کے بھائی کے متعلق پوچھتے رہے، اس کے ٹھکانے کے متعلق استفسار کرتے رہے، بھائی کے دوستوں کے متعلق سوال کرتے رہے۔
ہبہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ اخوان المسلمین کی آرگنائزر ہیں، منتظم ہیں اور تنظیم کا ترجمان رسالہ النذیر بانٹتی ہیں۔ حالاں کہ ہبہ کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے فرد کی بہن تھیں جس کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ جب ہبہ ان سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہیں تو ظلم، جبر اور اذیت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو پورے نو سال تک جاری رہا۔ ان نو سال میں رحم کے سب دروازے بند رہے، امید کا ہر دیا بجھا دیا گیا۔ ان نو سال کی داستان ہبہ الدباغ نے اپنی کتاب میں لکھی ہے جسے پڑھتے ہوئے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے۔
نو سال قید میں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا، ان کی ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا، جیل کے حالات اور معمولات کیا تھے، اہل کاروں کا رویہ کس حد تک ظالمانہ تھا، کتاب میں وہ سب تفصیل سے لکھا ہے۔
بلاک میں اس قدر زیادہ قیدی بھر دیے گئے تھے کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جب قیدی خواتین رات کو سونے کے لیے لیٹتی تھیں تو کروٹ لینا بھی محال ہوتا تھا۔ جیل میں قیدیوں کو دی جانے والی نا مناسب غذا اور صفائی کی کمی کے سبب قیدی خواتین قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوئیں۔
کتاب میں ان قیدیوں کی داستانیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو زنداں میں ہبہ کے ہم راہ تھیں۔ ان میں وہ خواتین بھی تھیں جو براہ راست اخوان المسلمین سے وابستہ نہیں تھیں لیکن ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار اخوان کا حصہ تھا۔ ایک ایسی خاتون بھی دھر لی گئیں جو اپنے شوہر اور چار بچوں کے ساتھ کرائے کے جس گھر میں رہتی تھیں، وہ گھر اخوان المسلمین کے کسی حامی کا تھا۔
کتاب میں سب سے زیادہ دکھی کر دینے والا واقعہ اس قیدی خاتون کا ہے، جو پڑھائی میں اپنے ماموں زاد بھائی کی مدد کیا کرتی تھیں۔ اسے ریاضی اور فزکس پڑھاتی تھیں۔ اس لڑکے کے کسی دوست پر اخوان المسلمین سے تعلق کا الزام لگا اور اسے دھر لیا گیا اور پھر اس کے تمام دوست بھی پکڑ لیے گئے۔ جس لڑکے کو وہ خاتون پڑھاتی تھیں، تفتیش کرنے والوں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سکھاتا پڑھاتا ہے۔ اب سوال کرنے والوں نے تو تنظیمی معاملات کا پوچھا تھا، لیکن لڑکے نے سادگی سے اسی خاتون کا نام لے دیا جو اسے ریاضی اور فزکس پڑھاتی تھیں۔ بس پھر اسی غلط فہمی میں وہ خاتون پکڑ لی گئیں اور ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھیں۔
یہ کتاب جتنی پر اثر ہے، اس کا ترجمہ بھی اتنی ہی مشاقی سے کیا گیا ہے۔ تاہم ایک کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ آج کے پڑھنے والوں کے لیے تھوڑا سیاق و سباق بیان کیا جانا بھی ضروری تھا۔ مترجم نے یہ فرض کر لیا کہ آج کا پاکستانی قاری جب یہ کتاب پڑھے گا تو وہ نہ صرف اخوان المسلمین سے واقف ہوگا بلکہ اسے ان حالات سے بھی آگاہی ہوگی جو 1980 کے زمانے میں شام میں برپا تھے۔ ایک باب سیاق و سباق کا بھی شامل کر دیا جاتا تو کتاب پڑھنے والوں کو زیادہ سمجھ آتی۔
ہوا یہ تھا کہ 1980 کے زمانے میں اخوان المسلمین نے شامی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی تھیں۔ وہ شام کے صدر حافظ الاسد کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ اس پر صدر حافظ الاسد نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔ شام میں اخوان المسلمین میں شمولیت کو قانوناً جرم بنا دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حما (Ḥamāh) شہر میں 10 ہزار سے لے کر 25 ہزار تک افراد کو قتل کیا گیا۔ صرف ایک شہر میں اور شامی افواج نے پورے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ حما کے قتل عام میں ہبہ الدباغ کا پورا خاندان، ان کے والدین، آٹھ بہن بھائی، سب مار دیے گئے۔
یہ وہ پس منظر تھا، جس میں شامی فورسز کسی بھی ایسے فرد کو اٹھا لیتی تھیں جس پر اخوان المسلمین سے تعلق کا شبہ بھی ہوتا تھا۔
یہ تمام تفصیل اس کتاب میں موجود نہیں ہے اور جو تفصیل میں نے اوپر چند جملوں میں بتائی، وہ بھی نا مکمل ہے۔ کیوں کہ اخوان المسلمین اور شامی حکومت میں چپقلش کب شروع ہوئی، کیوں شروع ہوئی اور اخوان نے ہتھیار کیوں اٹھائے، اس سب کا بھی ایک پس منظر ہے۔ بہت بہتر ہوتا کہ کتاب میں ایک باب اس تمام پس منظر کا شامل کر دیا جاتا اور سیاق و سباق مکمل غیر جانب داری سے بیان کر دیا جاتا۔
اس کے باوجود، یہ کتاب ریاستی جبر کا احاطہ کرتی ایک اہم دستاویز ہے۔ دل چسپی رکھنے والوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔