Smart Phone
سمارٹ فون
سمارٹ فون غالباً سمارٹ اس لئے کہلاتا ہے کہ کمال مہارت سے ہماری ہر ہر چیز اپنے قبضے میں کر لی اور پھر بھی نورِ نظر ٹھہرا۔ اب نیا سال آنے پر کیلنڈر نہیں بدلا جاتا، سائیڈ ٹیبل پر الارم پیس نہیں رکھنا پڑتا، لکھنے لکھانے کے لئے کاغذ، قلم نہیں چاہیے۔ تصویریں کھینچنے کے لئے کیمرے کی ضرورت ہے، نہ سنبھالنے کے لئے البمز کی۔ خط و کتابت پرانے دور کی چیز ہوئی، کتابیں بھی اسی پر پڑھ لی جاتی ہیں، بلکہ کتاب پڑھنے کا رجحان ہی کہاں بچا۔ کلائی پر گھڑی پہننا بطور فیشن تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کی ضرورت نہیں ہے۔ فون نمبرز کی ڈائری جس پر سب کے نام بالترتیب ہوا کرتے تھے، اب اپنے اپنے فون میں ہوا کرتی ہے۔
یہ سب تو نظر آنے والی چیزیں ہیں۔ فون کی صورت میں دیے گئے گھڑی، کیلنڈر، فون بک اور باقی سب چیزوں کے متبادل تو ہمارے بھلے کے لئے ہیں۔ نقصان تو کہیں اور ہوا۔
ہم سے ہمارا حوصلہ اور صبر جاتا گیا۔ کوئی بھی خبر تصدیق شدہ ہے یا نہیں، جسے جو پتہ چلا، آگے پہنچانا ہے۔ ایک دوڑ ہے جس میں سبھی کو اول آنا ہے۔ ٹرینڈ میں جو موضوع ہو، ہر ایک کو ہی لب کشائی کرنی ہے۔ ہر انسان ہر موضوع پر ماہرانہ رائے رکھتا ہے۔ معلومات کا ایک سیلاب ہے جس میں سب بہہ رہے ہیں۔ سب جھوٹ سچ خلط ملط ہے۔ معلومات بے تحاشا جبکہ علم کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، عمل اس سے بھی ناقص۔
فون نے ایک دوسرے سے اعتبار کو شدید زخمی کیا ہے۔ راز اب واقعی تب تک راز ہے جب آپ کے سینے میں ہے۔ آپ کے منہ سے الفاظ ادا ہوئے نہیں اور دھوم مچ گئی۔ پھر وہی بے صبری جس کا اوپر تذکرہ کیا۔ سب کو نیوز بریک کرنے کا جنون ہے جیسے کسی اور سے پہنچنی ہے، کیوں نہ مجھ سے پہنچ جائے؟ دوسرے کی عزت اس سے پہلے ارزاں نہ تھی۔ ٹی وی اور فلموں میں آنے والے لوگ، سیاست میں رہنے والے لوگ ٹارگٹ پر ہوا کرتے تھے۔ اب تو ہر انسان کی عزت نشانے پر ہے۔
بیچ چوراہے جس کے منہ میں جو آئے، بول دے۔ ہم سے ایک دوسرے کا احساس لے لیا فون نے۔ فون نے ہم سے ہماری نرم دلی لے لی۔ اپنے گھر والوں کی میت سے لے کر ہر حادثے کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرنا ایک عام سی بات ہے۔ اندر کا خلاء لائکس اور کامنٹس سے بھرنا ہے اس کے لئے چاہے کسی حد تک جانا پڑے۔ محبتیں بھی یہیں ڈسکلوز کی جا رہی ہیں اور جھگڑے بھی آن لائن ہی بھگتائے جا رہے ہیں۔
فون پر ہر طرح کی وافر اور انسٹینٹ معلومات نے ہم سے دماغ کا استعمال لے لیا۔ فون نمبر یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ سالگرہ کے ریماینڈر لگا لیے جاتے ہیں۔ اس سے کہیں بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ دین سے لے کر دنیا تک جو بھی سوال ذہن میں اٹھے اسے ایک لمحے کے لئے بھی غور و فکر نہیں کیا جاتا بلکہ گوگل سے مدد لے لی جاتی ہے۔ ریسرچ کرنے، گہرائی میں کچھ پڑھنے اور سیکھنے کا مزاج ہم سے چلا گیا۔
دکھاوا کچھ اس طور ہم سب میں رچ بس رہا ہے کہ کچھ کھا پی رہے ہیں، کہیں گھوم رہے ہیں، اچھے سے تیار ہو گئے ہیں، حتیٰ کہ عبادتیں تک پبلک ہیں۔ نماز کا خشوع ہی پہلے سا نہ رہا ہو جیسے۔ سلام پھیرنے کے فوراََ بعد نوٹیفیکیشنز یوں دیکھی جاتی ہیں گویا ان پانچ منٹ میں کون سی اہم ترین چیز ہم سے مس نہ ہوگئی ہو۔ عبادتوں کا لطف ہی کھو سا گیا ہو جیسے۔
ہر ایک سے ہر وقت رابطہ ہے اور سچ پوچھیں تو کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔ سب سُپر فِشکل ہے۔ اوپری اوپری، سطحی، تعلقات کا حسن ہی پھیکا پڑ گیا ہے۔ سمارٹ فون سے پہلے کی بات ہے لیکن فون ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکا تھا۔ عید کا چاند نظر آتے ہی ساتھ والوں کو کوئی ہگ کرے نہ کرے، انواع و اقسام کے عید مبارک میسجز ایک کثیر تعداد کو بھیجے اور موصول کیے جاتے تھے۔ وہ محض ابتدا تھی۔
اب میلوں دور والوں سے رابطے ہیں (وہی سطحی رابطے) اور ایک چھت تلے ایک کمرے میں موجود افراد آپس میں ڈس کنیکٹڈ ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہو؟ ہمارے یار بیلی، ہمارے سنگی ساتھی لے لئے۔ ہمارے گھر والے ہی لے لئے اس نے۔ ساتھ ہو کر کوئی ساتھ نہیں۔ ہمارا آئے کانٹیکٹ بیگانہ ہوگیا۔ سب سکرین کے پار سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ ایک گھر میں ہی کھانے کے وقت میسج کر کے بلایا جاتا ہے۔ اجنبیت سی اجنبیت ہے۔
وقت۔ محدود وقت۔ قیمتی وقت۔ چیز گنی ناپی ہوئی ہو اور ہو بھی قیمتی، اس کی تو حفاظت کرنی بنتی ہے، لیکن ہم سے ہمارا سارا وقت فون کھا گیا۔ مجھ سمیت جسے دیکھو مصروف ہے۔ کہاں؟ کیوں؟ پہلے دور کے تمام کام مشینیں کرتی ہیں۔ کپڑے درزی سی کر دیتے ہیں۔ کام ماسی کر جاتی ہے۔ بچوں کے قاری صاحب الگ ہیں، ٹیوٹر الگ۔ آخر کیا ہے جو ہر ہر وقت ہمیں مصروف رکھے ہوئے ہے؟ ہمارے لمحے کون چرا رہا ہے؟ فون ہی تو ہے۔
فون ہمارا سکھ چین لے گیا۔ اب ایک خلاء ہے جسے کبھی ہم تصویریں لگا کر پر کرتے ہیں، کبھی جھوٹی سچی خبریں شئیر کر کے، اور کبھی جہان بھر سے رابطے میں رہ کر۔ اور دکھ تو یہ ہے کہ یہ سب کر کے بھی خلاء پر نہیں ہوتا۔ جب محور ہی کھو گیا ہو تو سکون کیسے پائیں؟