Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nayyer Taban
  4. Koi Kandha Nahi Deta

Koi Kandha Nahi Deta

کوئی کندھا نہیں دیتا

ہم سب کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں جب غصہ، اداسی، پریشانی یا بے چینی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا ہمیں سنبھالے، ہمیں سنے یا ہمیں سمجھائے۔ میں خود بھی people's person ہوں۔ مجھے اپنی پریشانی کہنے کے لئے کوئی انسان درکار ہوتا ہے۔

یعنی اس چیز کی اہمیت سے انکار نہیں کہ کوئی ہمارے دکھی دنوں میں ہمیں نان ججمنٹل ہو کے سن لے، ہمارے concerns کو ایکنالج کر دے اور ہماری بات کو اپنے تک سنبھال رکھے۔ بندہ بندے دا دارو ہُندا اے۔ اپنی بات کہنے کو، کسی کو بات سننے کو انسان چاہییں۔

مسئلہ تب ہو جاتا ہے جب ہم کسی کے سر پر مسلط ہی ہو جائیں۔ آئے دن ہمارا دل اداس ہے اور آئے دن ہمیں توجہ اور ایکنالجمنٹ چاہیے۔ کچھ دن تو کوئی ہمیں محبت سے سن لے گا، لیکن آخر کتنے دن؟ پھر ہر ایک انسان کے اپنی جذباتی اتار چڑھاؤ بھی ہوتے ہیں، ممکن ہے جب ہمیں ان کی ضرورت محسوس ہو، وہ اس وقت ہمیں میسر نہ ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی جذباتی کیفیت خود ریگولیٹ کرنا سیکھیں تاکہ ہم دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔

آئیں، میں بتاؤں کیسے؟ سب سے پہلا کام یہ کریں کہ آپ اپنی کیفیت کو نام دیں۔ name it to tame it والی بات۔ خود سے کہیں: مجھے غصہ آ رہا ہے، مجھے اداسی ہے، پریشانی ہے۔ آپ سرچ کیجیے the feel wheel. اسے سامنے رکھ کر اپنے جذبات کو پہچاننا اور نام دینا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ جب ہم جذبات کو نام دیتے ہیں تو وہ ہلکے ہونے لگتے ہیں۔

ڈیپ بریدنگ کا میں بتا نہیں سکتی کہ کس قدر فائدہ مند ہے۔ پہلے پہل مجھے لگتا تھا کہ دھیان بٹانے کو کہا جاتا ہے تا کہ اپنی سوچ سے نکل کر دھیان سانس کی طرف چلا جائے۔ لیکن آپ کرکے دیکھیے تو محسوس کریں گے کہ واقعی اس سے دل کی دھڑکن، دماغ کا تناؤ اور جسم کا دباؤ سب کم ہونے لگتا ہے۔ آنکھیں بند کرکے چند گہری سانسیں لیں اور آنکھیں کھولنے پر منظر شفاف محسوس ہوتا ہے، یعنی brain fog چھَٹ جاتی ہے۔

اور لکھیں! اپنے احساسات لکھیں۔ اس کے لئے رائٹر ہونا ضروری نہیں۔ بیشک یہیں سے بات شروع کریں کہ "میں اس وقت غصہ ہوں کیونکہ"، "میں اداس ہوں کیونکہ" جب آپ لکھتے ہیں تو جذبات دماغ سے نکل کر کاغذ پر آ جاتے ہیں اور دماغ ہلکا ہونے لگتا ہے۔

اگر آپ کو یہ ڈر ہے کہ کوئی اور پڑھ لے گا تو ڈیجیٹل جرنلنگ کر لیں۔ واٹس ایپ پر اپنے آپ کو میسج کر لیں، یا خود کو ای میل، یا نوٹس میں لکھ لیں۔ یوں آپ کے احساسات آپ تک رہیں گے۔

اچھا، گہری سانس کی مشق ہو یا جرنلنگ، یہ بیٹھ کر کرنے والا کام ہے۔ ایموشنز کا دباؤ کم کرنے کے لئے کوئی فزیکل ایکٹیوٹی بھی اچھی رہتی ہے، چاہے واک کر لی جائے، ذرا دیر نیچر میں نکل جایا جائے یا کوئی ہلکی پھلکی ورزش۔

اپنے آپ کو جج کرنے کے بجائے خود کو اپنے بیسٹ فرینڈ کی طرح تسلی دیا کریں۔ پازیٹو سیلف ٹاک جیسے یہ وقت گزر جائے گا، یا میں اپنی پوری کوشش کر رہی ہوں۔۔ تھیراپی کے دوران انڈر کنٹرول، آؤٹ آو کنٹرول کے دائرے نے میری بہت مدد کی ہے۔ دائرہ بنائیں اور اپنی پریشانی میں جو کچھ آپ کے کنٹرول میں ہے، وہ دائرے کے اندر لکھ لیں۔ باقی سب کچھ باہر۔ اپنی آنکھوں سے خود جب دیکھا جائے کہ کیا چیز میرے دائرہ اختیار سے باہر ہے، تو انسان اس پر تھکنا کم کر دیتا ہے۔

اور دعا کے بغیر کوشش میں برکت کہاں آتی ہے۔۔ سہارا ہمیشہ اللہ ہے۔ دعا، قرآن کی تلاوت یا خاموش ذکر دل کو ایک الگ ہی سکون دیتے ہیں جو کسی اور ذریعے سے نہیں ملتا۔ اس سے دل کا حال کہیں۔ کندھے سے بوجھ ہلکا کرنے کا کہیں اور تصور میں یہ چیز لائیں کہ اللہ وہ وزن ہلکا کر رہے ہیں۔

سپورٹ سسٹم ضروری ہے۔ اکیلے پڑنے لگیں تو کسی قریبی دوست سے بات کہیں لیکن اسے عادت نہیں بنا لیں۔

اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخری
کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا

تو بس، خود کو خود سنبھالنا سیکھنا ہوتا ہے اور جو بہت ایمپتھیٹک لوگ دوسروں کو سننے کو میسر رہتے ہیں، آپ سے بھی یہی کہنا ہے کہ لوگوں کو ایمپاور کریں۔ انہیں سیلف ریگولیشن کے طریقے سکھائیں۔ موجود رہیں، لیکن لوگوں کو خود پر بہت ڈیپینڈنٹ نہ کریں۔ یہ ایک تھکا دینے والا کام ہے۔

ایموشنل ریگولیشن ایک ہنر ہے جو وقت اور پریکٹس سے آتا ہے۔ جب ہم یہ سیکھ لیتے ہیں تو ہمیں بار بار دوسروں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یاد رکھیں، جذبات دشمن نہیں ہیں، وہ صرف سگنل ہیں۔ ہمیں انہیں دبانا نہیں بلکہ پہچاننا اور سنبھالنا ہے، کبھی کسی کی مدد سے اور اکثر اوقات خود۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan