Bache Se Baat Kaise Manwai Jaye?
بچے سے بات کیسے منوائی جائے؟
ہم نے کہا کہ بچے کو دھمکایا نہ جائے یعنی "اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے تو میں شاپنگ پر نہیں لے جاؤں گی، بات نہیں کروں گی، ناراض ہو جاؤں گی، ساتھ نہیں سلاؤں گی، کہانی نہیں سناؤں گی، کھلونہ نہیں دلاؤں گی، گیم ڈیلیٹ کر دوں گی، وائے فائے بند کر دوں گی۔ " اور ایک لمبی لسٹ جسے آپ اپنی مرضی سے پُر کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ غلط ہے!
دھمکی دے کر بچے سے کام کروانا غلط ہے۔
آپ کی محبت اس کی کمزوری ہے، اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھانا غلط ہے۔
آپ کی ذات میں اس کا کل جہان بستا ہے، اس جہان کے دروازے اس پر بند کرنا غلط ہے۔
تو پھر؟
دوسری آپشن ہے کہ انہی جملوں کی بُنت مثبت کر دی جائے۔
"آپ یہ کام کریں گے تو ہم باہر جائیں گے۔ آپ کھانا کھا لیں تو آپ کو کینڈی ملے گی۔ مہمان آئیں گے اور اچھے بچے بنیں گے تو ایکسٹرا سکرین ٹائم ملے گا۔ " (یاد رہے کہ سکرین ٹائم اور کینڈیز کا لالچ بد ترین ہے۔)
اب ہوا یہ کہ بچہ یا تو دھمکی سے ڈر کر بات سننے کی طرف آتا ہے، یا کسی چیز کے لالچ میں۔
دونوں ہی غلط ہیں۔
سلمان آصف صدیقی صاحب کو نقل کروں گی، "ہمیں بچے کا عمل نہیں، اس کا کردار ٹھیک کرنا ہے۔ "
دھمکی اور لالچ سے اس کا عمل آپ کی پسند مطابق ہو جائے گا لیکن صرف تب تک جب تک آپ سامنے ہیں۔ صرف تب تک جب تک دھمکی یا لالچ سامنے ہے۔ جن احباب نے کہا کہ اللہ نے بھی جنت کی بشارت دے کر نیک اعمال پر اکسایا ہے اس لئے ریوارڈ سسٹم عین مناسب ہے۔ اللہ کی بشارتیں delayed gratitude کے زمرے میں آتی ہیں۔ خاتمہ بالخیر کی دعا بھی اسی لئے طلب کی جاتی ہے کہ کہیں آخر میں ہی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ اعمال کر لینے کے بعد بھی گارنٹی نہیں اس لئے اعمال کا قبول ہونا مانگا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ کی دیواریں بھی کھڑی کر دی تب بھی حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ دعا کرتے ہیں کہ یہ عمل قبول ہو جائے۔ معصوم عن الخطا پیغمبر ﷺ دن میں ستر سے سو بار استغفار طلب کرتے ہیں۔ گویا ایسا نہیں کہ ادھر عمل کیا اور ادھر انعام سے نواز دیا گیا، جبکہ بچوں کو ریوارڈ دینا بس ایک لالچ ہے جو ملے تو کام ہو گا، ورنہ چھٹی۔ ہر وقت تعریف اور شاباشی بھی مناسب نہیں۔ اعتدال ہی بہتر ہے، ورنہ یہ مستقل external validation کی عادت اگر دے دی گئی، وہ اس کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکیں گے۔
یہ نہیں کرنا، وہ بھی نہیں کرنا، تو پھر کرنا کیا ہے؟
پہلی چیز تعلق اور بے لوث محبت۔ ہم پسند کرتے ہیں کہ ہم سے اگر مگر کے لاحقے کے بغیر تعلق رکھا جائے، غیر مشروط محبت کی جائے، تو پھر یہی چیز اپنی اولاد کے لئے کیوں نہیں؟
دوسری چیز دلیل۔ کچھ کرنا ہے تو کیوں کرنا ہے؟ کیا وجہ ہے؟ نہ کریں تو کیا نقصان ہوتا ہے؟ لمبے چوڑے لیکچر کی ضرورت نہیں۔ عمر کے اعتبار سے بچے کو کچھ ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ چاہیں تو لکھ کر، یا تصاویر کی مدد سے چارٹ بنا لیں۔ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر دو طرفہ ڈسکشن کر لیں۔ بچے کے دماغ میں واضح ہونا چاہئے کہ گھر کے کچھ کام اسی کی ذمہ داری ہیں اور کس دن اسے کیا کرنا ہے۔
دور سے چیخنے چلانے کے بجائے بچے کا نام لے کر اس کی توجہ لی جائے۔ جب وہ "جی" کہہ کر آپ کی طرف متوجہ ہو اس وقت مختصر ترین جملے میں کام کہہ دیں۔ لمبے لیکچر اور طعنوں کے بجائے نام پکار کر توجہ لیجیے اور مختصراََ مدعا بیان کریں۔ بچے اگر ہماری چیخ پکار کے عادی ہو چکے تو انہیں اس نئے لب و لہجے کے ساتھ ٹیون ہونے میں کچھ دن لگیں گے لیکن بہرحال یہ طریقہ کارگر ہو جائے گا۔ خود کو بھی مسلسل صبر سے اس طرف مائل کرنا ہے۔ ہمارے ہاتھ اور زبان کے شر سے اللہ ہر دوسرے انسان کو محفوظ رکھے، ہماری اولاد سمیت۔ آمین۔