Talba Tanzeemen, Siyasi Mahol
طلبا تنظیمیں، سیاسی ماحول
سیاسی بیٹھک، علم کا روشن چراغ مستقبل پر دوربینی کا فن ضرور سکھاتی ہیں۔ پہلے پہر ایک مخصوص جگہ ہواکرتی تھی جہاں سیاسی محفلیں لگتیں، گوادر کا "کریمو ہوٹل"۔ آج بھی سیاسی و ادبی و دیگر علم کے گہوارے شخصیات سے آباد ہے جہاں سے نئے سیاسی پھول کھل اٹھتے ہیں جو آگے چل کر مولانا ہدایت الرحمن جیسے لیڈر بنتے ہیں جو بلاکسی لالچ کے اپنی قوم کی خاصر سردیوں کی لمبی راتوں میں 30روز تک دھرنا جاری رکھتے ہیں اور انکے عزائم میں کوئی سستی نہیں آتی۔
یہ ہوٹل100 سو سال پرانا ہے۔ کھنڈرنما اس ہوٹل میں نایاب چائے ملتی ہے جو خالص گھڈ سے حاصل کردہ دودھ سے بنتی ہے۔ اس ہوٹل کے ساتھ سلطنت عمان کا قلعہ ہے۔ 150 سال پہلے یہاں رومانوی لوگ آباد تھے۔ جو کسی خاص وجہ سے کوچ کرگئے تھے، بعد میں عمان کے باسیوں نے ڈیرے ڈال دیئے۔ ایسی جگہیں نایاب ہیں کیونکہ جس طرح ڈیجیٹل دور اپنے عروج پر پہنچا ہے اسی طرح انسانوں میں آپسی ملاپ گھٹتا جارہا ہے۔
ہوٹل جو سیاسی و حالات حاضرہ پر بحث و مباحثے کا جگہ ہواکرتی تھی اب وہاں بیٹھے لوگ بھی اپنے اپنے موبائل استعمال کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں اس طرح کی سیاسی و ادبی ماحول مہیا کرنے کا کام "بساک" سرانجام دے رہا ہے۔ طلبا کو سیاسی سرگرمیوں سمیت ادبی میدان میں استفادہ پہنچانے کو ہر ضلع میں بک اسٹال لگا کر جہالت میں ڈوبے معاشرے کے لئے ایک امید کی کرن ثابت ہورہاہے۔
سیاسی شعور پیدا کرنا میں سمجھتا ہوں ضروری ہیں جس کا خلا دوسری طلبا تنظمیں پورا کردیں گے۔ بساک معاشرے میں علم کا ایک امید کرن ہے اسکو مزید تقویت بھی انہی نقوش سے مل سکتا ہے جو کہ طلبا سمیت معاشرے کے لئے بھی معاون ثابت ہوگی۔ پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا کلچر زوال کی جانب رواں دواں ہے۔ کچھ دوست تو یہ کہتے ہیں کہ یہاں کتابوں سے استفادہ کرنے کا رواج ہی ختم ہوچکا ہے یہ بات کسی حد تک درست ہے اس کے برعکس اب بھی تک کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ان کے صبح کی آغاز کتابوں سے ہوتی ہے رات کے گوشہ گوشہ پر جب سماں چھایا ہوتا ہے تو یہ کتابوں سے سرگوشیوں مصروف رہتے ہیں۔