Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Naseer Ahmed
  4. Dastaan e Gham

Dastaan e Gham

داستانِ غم

داستانِ غم سناتے وقت پلکوں سے آنسوں دامن میں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے اور یوں اس نے کل کی ریلی میں اپنی شرکت یقینی بنائی تھی۔ کئی داستان نظروں سے اوجھل ہیں، فاقہ کشی (بھوک) ننگ و ناموس نہ رہے تو انسان خود کشی پر اتر آتا ہےاور خودخودکشی خود کی خوشی نہیں بلکہ ڈپریشن، انگزائٹی کی وجہ سے کرگزرنےپر مجبور کرتی ہےاسے obsession کہاجاتا ہے۔

اکثر غریب جو بے روزگاری کا شکار ہیں یہ بیماری ان ہی پر لائق ہوجاتی ہے، یہ بات ریسرچ سے ثابت ہواہے۔ بےروزگاری کینسر کی بیماری کی طرح ہے جس کا علاج صرف اور صرف روزگار کی فراہمی ہے وگرنہ پوری جسم میں پھیل کر اسے دیمک کی طرح کھاجاتی ہے جو اس کی موت کا سبب بنتی ہے۔

آج کے موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔ کل آواران میں بےروزگار نوجوانوں (زمیاد یونین) کی جانب سے ریلی نکالی گئی جس میں زمیادوں کا ایک نہ ختم ہونے والی لہر بھی شامل تھی۔ مطالبہ سیدھا اور معصومانہ تھا "ہمیں روزگار دو" دے نہیں سکتے ہمارا روزگار مت چھینو"آواران کے عوام کا معاشی قتل بند کرو ، زمیاد گاڑیوں پر پابندی نامنظور نامنظور" یہ ان کے چند معصومانہ گزارشت میں سے ایک تھیں۔

وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو کے حلقے کا یہ حال کہ لوگ اگر مربھی جائیں تو انہیں کوئی حرج نہیں، کیا کیا ہے وزیراعلی نے آواران کے لئے جسے وزارت اعلیٰ کے منصب نوازا گیا۔ یہاں نہ بجلی نہ روڑ نہ پینے کا پانی ہے۔ گوادر میں بیٹھے لوگ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وزیراعلی بلوچستان قدوس بزنجو آکر انکے مسائل حل کریں گے؟ شہریوں کو روزگار دینا حکومت کی زمہ داری ہوتی ہے بجائے اسکے کہ حکومت روزگار کے مواقع پیداکریں حکومت نے تو لوگوں کی روزگار بند کردیا ہے۔

قدوس بزنجو کے منہ سے تو روزگار و ڈیولپمنٹ کی بات اچھی نہیں لگتی جس کے حلقے میں 176 اسکولز بند ہوں 950 اساتذہ کی پوسٹیں خالی ہوں وہ بلوچستان کے ترقی کے لئے کیا کچھ کرے گا؟ انتہائی شرم کی بات ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ آپ وزیراعلی کے حلقے آواران کے متعلق یہ کہہ رہیں کہ 176 اسکولز اور 950 استاتذہ کی پوسٹیں خالی ہیں جب میں ہاں میں جواب دیتا ہوں اس پر جو اسکا ردِعمل ہوتا ہے وہ میں یہاں بیان بھی نہیں کرسکتا۔

اپنے حلقے میں کام کرنے سے تو یہ رہا کیوں نہ آپ مولانا کے ساتھ گوادر دھرنے پر بیٹھ جائیں چونکہ ان کے مطالبات میں بھی بارڈر کی بحالی شامل ہے۔ حالیہ کیچ کے دورے پر قدوس بزنجو نے بارڈر کی کھولنے کا اعلان اس لئے کیا کہ انہیں لگا تھا کہ مولانا کے اس مطالبات پر عمل درآمد شنید میں آیاہے اس نے سوچا کیوں نہ اسکا کریڈ اپنے نام پر کیا جائے لیکن قیادت نے اسے کریڈٹ لینے سے محروم کردیا۔

قدوس بزنجو آواران آنا تک گوارا نہیں کرتا تو وہ آواران کے لوگوں کی بات کیسے سنے گا انہیں تو صرف اپنی پارٹی کے قیادت سے واسطہ ہے۔ بہرحال ابکی بار حق دیا نہیں گیا تو عوام کو اپنا حق چھیننا ہوگا۔ امید ہے آواران کے عوام بالخصوص زمیاد یونین اپنے موقف پر قائم رہیں گے تاکہ باڈر کھولا نہ جائے۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal