Balochistan Ko Haq Do Tehreek Aur Hakumati Commetian
بلوچستان کو حق دو تحریک اور حکومتی کمیٹیاں
ظلم سے مراد کیا ہے؟ صرف مارنا پیٹنا ظلم کی نہیں بلکہ نوجوان نسل کو منشیات میں مبتلا کرکے انکے مستقبل کو برباد کرنا، تعلیم سے محروم رکھنا، سیاسی قیادت سے محروم رکھنا یہ سب بھی ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔ مولانا ہداہت الرحمن نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا کہ اس وقت پورے بلوچستان میں دس لاکھ نوجوان منشیات جیسی ناسور مرض میں مبتلا ہیں، شرمناک، حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟
یوں تو سارے ملک کا یہی حال ہے لیکن بلوچستان بھی مسئلہ اور مسائل کی طرح سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ مولانا کے سرگرم لوگ اگر یوں منشیات کے خلاف مہم میں ہم آہنگ رہے تو گوادر میں منشیات کا خاتمہ ممکن ہے لیکن باقی اضلاع کا کیا بنے گا؟ کیا ان اضلاع میں منشیات کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟ اس سوال کا جواب حکومتی رویہ پر ہے جس طرح کا رویہ ہمارے پولیس نے اپنایا ہوا ہےمنشیات کا خاتمہ قطعی ممکن نہیں کیونکہ سچ چھبتی ضرور ہے لیکن میں یہاں پر وہ کانٹا بننا پسند کروں گا۔
بلوچستان کے دیگر اضلاع میں منشیات فروشوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، میں نےکہیں باتیں اپنے ان گناہگار کانوں سے سنیں ہیں چونکہ ثبوت کی کمی اور عدم اعتماد کی کمی کے باعث فی الوقت میں صرف تنقید ہی کرسکتا ہوں۔ بلوچستان کو منشیات سے پاک کرنا ہے تو پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا جوکہ خاصا مشکل ہے۔
جس طرح گوادر میں بلوچستان کے اور اضلاع کے برعکس مسائل سنگین تر ہیں۔ آواران بھی بلوچستان کا سب سے پسماندہ اظلاع میں شمار ہوتا ہے جو کہ بلوچستان کے موجودہ وزیراعلی کا حلقہ اور آبائی گاوں ہے۔ آواران منشیات کا گڑھ بن چکا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانا فی الوقت ضرورت ہے۔وگر نہ انکے سنگین نتائج کے لئے تیار رہیں جو چوری، ڈاکہ زنی و دیگر جرائم پیشے کی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
یہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے وقت پر کبھی ری ایکٹ کیا ہی نہیں، جب کوئی چیز شدت اختیار کرجاتی ہے تو ہم اسے طاقت کے زور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے ہم سب کو اشرف المخلوقات بنایا ہے یعنی ہمیں تمام تر مخلوقات میں انسانوں کو جو شرف حاصل ہیں وہ کسی اور جاندار کو نہیں ہیں۔ آج کے دور میں انسانوں کا جانواروں کے ساتھ موازنہ کرنا جانوروں کی توہین ہوگی چونکہ جانور کبھی اپنے رب سے مایوس نہیں ہوتے ۔
اس لئے پوری دنیا میں سب سے زیادہ جودوائی زیادہ بکتی ہے وہ ڈپریشن و انزائٹی کی دوا ہے۔ ہر چیز کا حل طاقت نہیں ،خدارا اپنی عقلِ سلیم کو بروِکار لاکر فیصلے کریں یقیناً انکے نتائج بہتر ہوں گے۔ جس طرح گوادر دھرنے پر بیٹھے لوگوں کو 21 روز جب مکمل ہوچکے تھے تو حکومت نے بجائے اسکے انکے مسائل سن کر حل کرتے 5500 پولیس اہلکار تعینات کردیئے جس میں لوگوں اور متحرک ہوگئے اور یہ تحریک اور شدت اختیار کرگئی جس سے بعد میں اسکا نام گوادر حق دو تحریک سے بدل کر بلوچستان کو حق دو تحریک کے نام سے منسوب ہوا۔
یہ سب حکمرانوں کی بروقت ری ایکٹ نہ کرنے سے ہی ممکن ہوپایا ہے جس پر اب یہ تحریک ہر گھر کی آواز بن چکی ہے اور دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اس تحریک کو پوری دنیا کو پزیرائی ملنا ہماری ماوں بہنوں کے شرکت سے ممکن ہوپایا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں اس تحریک کو دنیا تک پہنچانے کا سارا کریڈٹ مولانا سمیت ہمارے ان ماں بہنوں کو سر جو اپنے حقوق کے خاصر سڑکوں پر آنکلے یوں پوری دنیا نے دو سمندر یکجا دیکھا ایک طرف لوگوں کا سمندر اور تو دوسری طرف قدرتی سمندر، اور ہاں اس تحریک میں حکمرانوں کا کریڈٹ بھی اتنا ہی ہے جنتا مولانا کے ساتھ بیٹھے لوگوں کے ساتھ لوگوں کا کیونکہ انکی بروقت کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے آج یہ تحریک گھر گھر کی آواز بن چکی ہے۔