Awam Ki Hukumat
عوام کی حکومت
جہاں حقیقی سیاسی ترجمان نہ ہوں وہاں بالاآخر عوام کی حکومت رائج ہوجاتی ہے۔ عوامی حکومت اس وقت رائج ہوجاتی جب ظلم کی انتہا ہو۔ بلوچستان میں ظلم کی ایک ایسی داستان رقم کی گئی ہے جس نے عوام کو خود حکمرانی کرنے پر مجبور کیا ہے جس کا آغاز دھرنے اور جلسوں سے ہوا ہے۔ یوں تو بلوچستان کی سیاست میں کئی لوگ آئے اور گئے لیکن ان میں سے چند ایک نام ایسے بھی تھے جنہوں نے عوام کے دلوں میں ڈیرے جمائے، موجودہ دور میں ان میں سے ایک نام مولانا ہدایت الراحمن کا ہے۔ جو "گوادر کو حق دو تحریک" کے سربراہ کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ہے۔ آج نہ صرف بلوچستان و پاکستان میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی مولانا ہدایت الراحمن کے خوب چرچے ہورہے ہیں۔ مولانا اپنے بے باک و جراتمندانہ باتوں سے جانا جاتاہے، مزاح میں وہ باتیں کہہ ڈالتے ہیں جو حکمران کو سینے پر چبھ جاتے ہیں۔
ہمارے لیڈران نے بلوچستان کے مسائل کو ہمیشہ قانونی طریقے سے حل کرنے کے بجائے اور سب ناکام طریقے آزمائے ہیں جس کی مثال موجودہ دور میں آپکے سامنے ہے گوادر احتجاج پر بیٹھے لوگوں کو 12 روز مکمل ہوگیاہے۔ بجائے اسکے کہ حکومت ان سے ڈائیلاگ کرے آج گورنر آغا ظہور حسن نے ایک آرڈیننس جاری کردیا جس کے بزور عوام کو ان کے حقوق کے لئے دھرنوں اور جلسوں سے روکنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سارے حربے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دورِ جدید میں جو طریقہ کار اپنایا جارہا ہے وہ ناممکن و بےسود ثابت ہوں گے۔ اس دورِ جدید میں میڈیا نہیں البتہ سوشل میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے جس کا استعمال بچے بچے کے ہاتھ میں ہے۔ کسی مقامی نیوز چینل نے گوادر پر بیٹھے دھرنے کو کوریج نہیں دیا ہے البتہ ہماری مادری زبان کے حامل چینل وش نیوز بھی اب تک پسِ پشت رہا ہے۔ اسکے برعکس بھی چاروں اور مولانا کے چرچے ہورہے ہیں۔ بی بی سی سے لیکر کہیں انگریزی نیوز چینلز نے بھی مولانا کے درھرنے کو کوریج دیا ہے۔
پرامن احتجاج کا حق آئین دیتا ہے حکمران تمام مطالبات پر بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں۔ حکومت ان مطالبات پر عمل درآمد کرے کیونکہ مولانا کے تمام مطالبات قانونی ہیں۔یوں عوامی حکومت کا ظہور ممکن ہوپائے گا۔