Pakistan Mein Jamhuriat Ka Bohran
پاکستان میں جمہوریت کا بحران
پچھلے کالم (پاکستان میں قیادت کا بحران) میں جس طرح میں نے پاکستانی قیادت اور اس کی ناکامی اور تغیرات کا ذکر کیا تھا، ٹھیک اسی طرح آج میں یہ بیان کروں گا کہ پاکستان میں قیادت کے بحران اور ناکامی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا بھی بہت بڑا بحران ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت صرف نام کی ہے عملی طور پر یہاں جمہوریت کا نام و نشان بھی نہیں۔
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام سے حکومت عوام کے لئے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ آمریت کے خلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بری قسمیں ہیں: جمہوریت بلا واسطہ اور جمہوریت بالواسطہ۔ جمہوریت بلا واسطہ میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے قائم ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف اس جگہ قائم ہو سکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔
دوسری عوام کے ذریعے عوام کی حکومت عوام کے لئے۔ لیکن افسوس پاکستان میں جو پارٹی اقتدار میں آتی رہی، باریاں لگنے سے ملک خاندانی سیاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جمہوریت کی ان جان لیوا پارٹیوں میں بد ترین ڈکٹیٹر شپ رہی اور انھوں نے کسی اور سیاسی پارٹی کو پنپنے کے لئے راستے ہموار نہ ہونے دیئے۔ کسی بھی پارٹی میں پارٹی سربراہ، سربراہ کہنے کے بجائے پارٹی مالک کہنا زیادہ قرینِ انصاف ہو گا۔
کہتے ہیں کہ جمہوریت بد ترین نظامِ حکومت ہے لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیراعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظامِ حکومت جمہوریت ہی ہے۔
پاکستان میں بھی ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے، خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی ہے اور اس مقصد کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر فخر سے کرتی ہے۔ آخری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف تو اتنے جمہوریت نواز نکلے کہ انھوں نے سویلینز کی جعلی جمہوریت، کو اصل سے بدلنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اس کوشش میں سبھی جمہوری جماعتوں کے بہت سے ارکان بھی اس کے ساتھ ہو گئے۔ کیا مشرف دور میں اصل جمہوریت آئی؟ کیا فروری 2008 کے انتخابات کا زمانہ جمہوری کہلا سکتا ہے؟ کیا پاکستان میں کبھی بھی جمہوریت رہی؟
اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل ایک سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں محض انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں فوجی ڈکٹیٹر اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لئے انتخابات کا سہارا لے چکے ہیں۔ سویلین حکمران انتخابی جیت کی طاقت پر ہر قسم کے غیر جمہوری اقدامات کرتے ہیں۔
ماضی قریب میں سیاست دان ووٹ پاکستانی عوام سے مانگتے رہے اور اقتدار غیر ملکی قوتوں سے۔ آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی عوام سے مخفی ہیں اور ان پر مذاکرات دبئی، ریاض اور واشنگٹن میں ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جس تسلسل سے سویلین اور فوجی حکومتوں نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا ہے اور جس شدت سے ذاتی یا گروہی مفادات کا پیچھا کیا ہے اس سے ملک میں صرف غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ آمرانہ اقدار کو فروغ ملا ہے۔
پبلک پالیسی پر تحقیق کے ادارے پلڈیٹ نے پانچ عناصر کی نشاندہی کی ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ ان میں سب سے اوپر حکومت چلانے کا شفاف نظام اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے۔ عوامی نمائندوں پر مبنی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کار سرکار ایمان داری سے اور بلا تعصب انجام دے گی۔ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے بھی بد گمان ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی جمہوری حکومت کی بقا سب سے مضبوط گارنٹی گڈ گورننس ہے۔ پلڈیٹ نے یومِ جمہوریت پر جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ملک کو سب سے بڑا خطرہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور طاقت کا مرکز بھی پارٹی یا اس کا کوئی عضو نہیں بلکہ ایک شخصیت ہی ہوتی ہے جس کی قیادت کو پارٹی کے اندر کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے اور نہ اختلاف کر سکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتی جو ان کا اصل مقام ہے اور یہ رویہ نوجوان نسل کو بھی سیاست سے دور رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ غیر فعال یا کمزور پارلیمان، سیاست میں پیسے کا بڑھتا عمل دخل اور فوج کی جانب سے جمہوری عمل کے تسلسل کی اہمیت سے انکار، باقی تین عناصر ہیں جنھیں پلڈیٹ نے جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔
جارج برناڈ شا نے کہا تھا جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمران ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو اس کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے۔ مملکتِ خدا داد میں نہ معاش، نہ وسائل، نہ معیشت، نہ عدل و انصاف ہے اور نہ جان و مال کا تحفظ۔ عوام کو یہاں حقوق حاصل ہے نہ ان کی عزت و آبرو محفوظ ہے حتیٰ کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کو جینے کا حق بھی حاصل نہیں رہا۔
ملکی حالات اس قدر گھمبیر و دگر گوں ہو چکے ہیں کہ لوگ اب بحث کرنے اور سوچنے لگ پڑے ہیں کہ پاکستان کا قیام کہیں غلط فیصلہ تو نہیں تھا؟ کیا یہ ملک عوام کی بجائے صرف خاص اشرافیہ اور ایک مخصوص طبقہ کے لئے بنایا گیا تھا؟ یہ صرف بڑے بڑے مالدار لوگوں کی تحفظ کے لئے بنا تھا یا اس ملک کا قیام اس ملک کے غریب عوام کے لئے تھا؟ مملکتِ خدا داد میں جمہوریت، کی بجائے مجبوریت، کا نظام نافذ ہے۔
جمہوریت تو در حقیقت کاروبارِ حکومت میں عوام کی شراکت کا نام ہے لیکن یہاں جمہوریت عوام کو کاروبار حکومت میں شراکت سے محروم اور دور رکھنے کی ایک ساز باز کا نام ہے۔ یہ جمہوریت ایک فی صد لوگوں کے لئے ان کی عیاشی اور کاروبار کا ذریعہ ہے۔ ملک کے تمام وسائل و ذرائع اور مال و دولت پر گنے چنے مخصوص لوگوں پر مشتمل مافیا قابض ہے۔ اس ملک کے بائیس کروڑ غریب عوام کے لئے نہ روز گار ہے نہ کوئی ذریعہ معاش ہے اور نہ کوئی وسائل جس سے وہ استفادہ حاصل کر سکے۔
یہاں غریب دو وقت روٹی کا محتاج ہے۔ برادریوں کے پیچھے چلنے والے محروم لوگ ہیں جنھیں دو وقت کا کھانا نہیں ملتا اور نہ ان کے پاس بل جمع کرنے کے پیسے ہیں۔ یہ جو زندگی سے تنگ ہیں وہ کسی کے اثاثہ جات کیا دیکھیں گے؟ ان کو معلومات ہی نہیں ہیں۔ جب ووٹرز کو صحیح معلومات ہی نہ ہوں تو ان کا ووٹ جمہوری ووٹ نہیں کہلاتا۔ نتیجتاََ آزادیِ رائے نہیں رہتی۔ کیا اسے نظامِ جمہوریت کہتے ہیں؟