Kathputli Riyasat
کٹھ پتلی ریاست
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر افراسیاب خٹک نے ایک بار کہا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں اس وقت تین ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ایسے طالبان موجود ہیں جن کا تعلق پنجاب سے ہے اور اس معاملے کو پنجاب حکومت کے ساتھ بھی اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بات 22 جون 2009 کو اسلام آباد میں طالبانائزیشن کا توڑ۔ مستقبل کا لائحہ عمل، کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں پوچھے گئے صحافی کے سوال کے جواب میں بتائی۔
سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقہ جات میں موجود پنجابی طالبان میں سے اکثریت صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھتی ہے اور اس سلسلے میں پختونخوا حکومت نے سرکاری طور پر پنجاب حکومت سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں فوج ریاست کے اندر ایک ریاست ہے تاہم اب یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اب فوج ہی پاکستان میں ریاست ہے۔
افراسیاب خٹک نے کہا کہ طالبانائزیشن اسی سکے کا دوسرا رخ ہے اور جسے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہوں نے طالبان کو پاکستانی فوج کی سٹریٹیجک ڈیپتھ، پالیسی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک سٹریٹجک جگہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان جو ایک ویلفیئر سٹیٹ تھا، اب ایک گیریژن سٹیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہمارا معاشرہ اب انارکی کی جانب گامزن ہے۔
ڈاکٹر ہود بھائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ خیال غلط ہے کہ صرف غربت، انصاف کی عدم فراہمی یا تعلیم کی کمی جیسے عوامل ہی پاکستان میں دہشتگردی میں اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان عوامل سے فائدہ اٹھا کر متاثرہ لوگوں کے ذہنوں کو دہشتگردی کی جانب ایک حد تک مائل تو کیا جا سکتا ہے لیکن دراصل پاکستان میں دہشتگردی کی جنگ مذہبی نظریے کی جنگ بن چکی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی ریاست کو عوام پر اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان صرف اسی صورت میں مضبوط ہوسکتا ہے جب اس کے عوام ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں۔ (ذیشان حیدر بی بی سی اسلام آباد 23 جون 2009)
ٹی ٹی پی کی جانب سے صحافیوں کو بھیجے گئے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے سال 2022 میں پاکستان میں 367 حملے کیے جن میں سب سے زیادہ 348 حملے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں کیے گئے۔ خیبر پختوانخوا کے ایک قبائلی ضلع میں سکیورٹی پر مامور ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہ نہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ کم سے کم میں ان اطلاعات کی تردید نہیں کر سکتا کہ دہشتگرد خیبر پختونخوا میں گراؤنڈ پر موجود نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے کچھ ماہ میں پاکستان بھر میں 14 خودکش دھماکے ہوئے جن میں سے 10 شمالی وزیرستان میں ہوئے۔ اگر دہشتگرد گراؤنڈ پر موجود نہیں تو پھر خودکش دھماکے کیسے ہو رہے ہیں؟
سکیورٹی افسر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں حافظ گُل بہادر کا گروہ سب سے زیادہ متحرک ہے اور یہ گروہ 2012 سے پہلے فوج کا حامی ہوا کرتا تھا لیکن پھر انہوں نے بھی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔
سکیورٹی افسر نے بھی دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹی ٹی پی کی مخالف ضرور ہے لیکن وہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کرتے ہیں اور انہیں کارروائیوں کے لیے نئے لوگ فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی کچھ سال بعد فوجیوں نے اسے یرغمال بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی کتاب "پاکستان ایک عسکری ریاست" کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ایک بار میں 2008 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف محو گفتگو تھا، ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جب پاکستان کی فوج مضبوط ہے پاکستان کی سالمیت برقرار اور بقا محفوظ ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال گونجا کہ یہ نظریہ ذہن نشین رکھیں 1971 میں سابق مشرقی پاکستان میں کیا ہوا تھا جب وہاں خونی اور تلخ خانہ جنگی چھڑ گئی تھی۔ غالبا مشرف مغربی پاکستان میں بھی بچے کھچے پاکستان کے بارے میں سوچتے تھے جہاں فوج ہی ہمیشہ طاقت کا حقیقی سر چشمہ رہی ہے"۔
عائشہ صدیقہ نے پاک فوج کے غلبے کی وضاحت کرنے کے لئے ایک سیاسی معاشی اساس پیش کی ہے۔ انھوں نے حمزہ علوی کی ما بعد نو آبادیاتی ریاست کے نقطئہ نظر سے اخذ کر دہ ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ جس میں انھوں نے واضح کیا ہے کی فوج کے نام نہاد مالی مفادات کی سیاسی معیشت کا در حقیقت مطلب یہ ہے کہ سینیئر فوجی افسران زراعتی اراضی، رئیل اسٹیٹ، بزنس اور صنعتی کاروبار کی ملکیت کے ذریعے مالیاتی وسائل پر بڑے پیمانے پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔ معیشت پر اس قسم کے کنٹرول کا مطلب ہے کہ جب بھی فوج اقتدار میں نہیں ہوتی اعلیٰ افسروں پر مشتمل طبقہ پاکستانی سیاست پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں اعلیٰ فوجی افسروں کے مفادات ادارہ جاتی مفادات بن جاتے ہیں اور یوں ملک کے مفادات کا روپ دھار لیتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا اندازہ ہے کہ جنرلوں کے قانونی اثاثہ جات کی مالیت 150 سے 400 ملین روپے کے لگ بھگ ہے(2007)۔ بالواسطہ معاشی قوت اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ جنرلوں کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے فروغ میں متحرک کردار نے انھیں پاکستان کا ایک نیا جاگیر دار طبقہ بنا دیا ہے۔
پاکستان دراصل ایک کٹھ پتلی ریاست ہے اور اس کے سیاست دان بھی کٹھ پتلی ہیں جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آ سکتے کیوں کہ اگر وہ سامنے آ گئے تو آج جو مزے وہ پیٹ پیچھے اور بندوق سییاست دانوں کے کندھوں پر رکھ کر کرتے ہیں پھر وہ نہیں کر پائیں گے۔